فیض آباد دھرنا کیس: ’جج جانبدار تھے، فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے‘

اپ ڈیٹ 12 اپريل 2019
فیض آباد دھرنے کے سبب 20 دن تک اسلام آباد اور راولپنڈی میں نظام زندگی مفلوج رہا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی
فیض آباد دھرنے کے سبب 20 دن تک اسلام آباد اور راولپنڈی میں نظام زندگی مفلوج رہا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں 2017 میں تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے فیض آباد میں دیے گئے دھرنے کے کیس کا فیصلہ سنانے والے جج پر جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے بھی سپریم کورٹ میں درخواست جمع کراتے ہوئے ان کا نام نومبر 2017 کے دھرنے کے فیصلے سے نکالنے کی استدعا کی، جہاں اس دھرنے کی وجہ سے 20دن تک اسلام آباد اور راولپنڈی میں نظام زندگی مفلوج ہو گیا تھا۔

مزید پڑھیں: فیض آباد دھرنا کیس میں سیکیورٹی اداروں کی سرزنش

پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل ارشد داد نے اپنے وکیل بیرسٹر ظفر علی سید کے توسط سے جمع کروائی گئی درخواست میں الزام عائد کیا کہ اس مقدمے کا فیصلہ لکھنے والے جج 2014 میں پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے اسلام آباد میں دیے گئے دھرنے، درخواست گزار اور اس کے اراکین کے کردار کے حوالے سے اس حد تک تعصب رکھتے ہیں کہ وہ معاملے میں 2014 کے دھرنے کا حوالہ لے آئے، لہٰذا درخواست گزار کہ یہ تحفظات بالکل جائز ہیں کہ یہ فیصلہ لکھنے والے جج مبینہ طور پر جانبدار تھے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ کے رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سخت ریمارکس دیے تھے اور 6 فروری کو لکھے گئے فیصلے میں ہدایات جاری کی تھیں۔

عدالت عظمیٰ میں دائر تحریک انصاف کی درخواست میں کہا گیا کہ اس فیصلے میں 2014 میں پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے دیے گئے دھرنے کا حوالہ دیا گیا تھا کہ جو اس کے ذمے دار تھے انہیں صاف بچ کر نکلنے دیا گیا اور ریکارڈ پر موجود مواد اور حقائق کی جانچ کے بغیر وہ افراد اہم سرکاری عہدوں پر موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: پولیس کاآپریشن معطل، 150 افراد گرفتار

درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ درخواست گزار کے خلاف مقدمے کا فیصلہ لکھنے والے جج کا فیصلہ یکطرفہ اور سخت تھا جس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ جج متعصب اور جانبدار تھے۔

اس درخواست میں 1989 کے محمد اکرم شیخ کیس کا حوالہ دیا گیا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج ایسے مقدمات کے بینچ میں بیٹھنے سے گریز کریں جس میں یہ معمولی گمان ہو کہ اسے جانبدار تصور کیا جا سکتا ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ کیونکہ اس مبینہ جانبدارانہ رویے سے پورا فیصلہ داغدار ہو گیا تو اس کے کسی بھی حصے کو حذف کیا جانا ناممکن ہے لہٰذا یہ فیصلہ دوبارہ دیکھ کر اسے کالعدم قرار دیا جائے۔

درخواست میں عدالتی قواعد و ضوابط کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست گزار نے کہا کہ مقدمے کا فیصلہ لکھنے والے جج سپریم کورٹ کے جج کے طور پر برقرار رہنے کے لیے نااہل ہو گئے ہیں کیونکہ انہوں نے مبینہ طور پر اس ضابطے کے آرٹیکل3 کی خلاف ورزی کی جو یہ کہتا ہے کہ ججز کو ناراضی کے اظہار سے بلند تر ہونا چاہیے اور معاملات چاہے ذاتی ہوں یا سرکاری، ججز کو اپنا رویہ ہر صورت میں کسی بھی معاملے میں نامناسب نہیں رکھنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: فیض آباد دھرنا: خادم حسین رضوی و دیگر کے وارنٹ گرفتاری جاری

درخواست میں کہا گیا کہ جس فیصلے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں وہ نامکمل معلومات پر مبنی رائے، اندازوں اور مفروضوں کے دائرے کار میں آتا ہے کیونکہ کسی بھی قسم کے حقائق پیش نہیں کیے گئے اور یہ بات ایک راز ہے کہ کس بنیاد پر اس طرح کا فیصلہ دیا گیا، فیصلے میں مذہب، سیاست اور اخلاقی اصولوں پر سخت ریمارکس دینے کے باوجود یہ کہا گیا ہے کہ عدالتی اختیارات آئین کے آرٹیکل 183(3) کے ضمرے میں آتے ہیں۔

شیخ رشید کی درخواست

دوسری جانب وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے عدالت میں درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ 6فروری کے فیصلے سے ان کا نام نکالا جائے۔

ایڈووکیٹ امان اللہ کنرانی کے ذریعے جمع کروائی گئی ان کی نظرثانی کی درخواست میں کہا گیا کہ یہ استدعا کی جاتی ہے 6فروری2019 کے مشکوک حکم کے خلاف سول ریویو پٹیشن کو یہ اجازت دی جائے کہ انصاف کے مفاد میں تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے کے فیصلے کے پیرا 4 میں موجود درخواست گزار کا نام نکالا جائے۔

اس فیصلے میں عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد، پاکستان مسلم لیگ ضیا کے اعجاز الحق، پی ٹی آئی علما ونگ اسلام آباد اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شیخ حمید شیخ کے نام شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے کا فیصلہ سنا دیا

درخواست میں شیخ رشید احمد نے موقف اختیار کیا کہ اگر اس فیصلے کے پیرا 4 سے ان کا نام نہ نکالا گیا تو اس سے ان کی زندگی اور ساکھ پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوں گے۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ میرے لیے اخلاقیات، اقدار، سیاست اور مذہب سب سے زیاد اہمیت کے حامل ہیں چاہے وہ حکومت میں ہوں یا نہیں، وہ مظاہرین میں شامل نہیں تھے، نہ انہوں نے سڑکوں کا استعمال کیا اور عوامی حق یا جان و مال کو انہوں نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔

درخواست گزار نے کہا کہ اپنے پورے سیاسی کیریئر میں انہوں نے ملک میں امن و امان کو فروغ دیا اور کبھی بھی غیرقانونی اور منفی سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہے۔


یہ خبر 12 اپریل 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں