لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

اگر آج نیوٹن زندہ ہوتے تو وہ فزکس میں ایک دوسرے قانون کا بھی اضافہ کرتے، جس کی تعریف کچھ یوں ہوتی کہ ’جب تک سچ اپنی پتلون چڑھائے تب تک جھوٹ دنیا کے 2 چکر لگا لیتا ہے‘۔

اگر وہ ہوتے تو اس تعریف کو بلاشبہ اور بھی بہتر انداز میں پیش کرتے مگر ہم آپ کو اتنا بتاتے ہیں کہ اس قانون کا ثبوت پشاور میں پایا گیا۔ جب انسدادِ پولیو مہم کا حالیہ مرحلہ شروع ہوا تو اس مہم کے خلاف ایک اور مہم اس وقت شروع ہوئی جب یہ اطلاعات آنے لگیں کہ پولیو کے قطرے پینے والے بچے بیمار ہوگئے اور ان میں سے چند مرچکے ہیں تو عوام میں بے چینی کی فضا پیدا ہوگئی۔

یہ اطلاعات جنگل کی آگ کی طرف پورے شہر میں پھیل گئی اور تقریباً 3 ہزار بچوں کو فوری طور پر ہسپتال لایا گیا۔ اس صورتحال کے بعد پولیو ورکرز کو ہراساں کیا گیا، دھمکایا گیا یہاں تک کہ بنیادی صحت کے ایک مرکز کو بھی نذر آتش کردیا گیا۔ خوش قسمتی سے ڈان نیوز کے رپورٹر کی کوششوں کے باعث ویڈیو کی صورت میں حقیقت سب کے سامنے آگئی جس میں افراتفری پھیلانے کے پیچھے چھپے اہم مجرموں میں سے ایک بچوں کو جھوٹ موٹ بے ہوشی کی حالت میں لیٹ جانے کے لیے کہتا ہے۔

کچھ ہی دیر میں خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے ایک تحقیقاتی رپورٹ سامنے لائی گئی جس نے یہ واضح کردیا کہ جس بیچ کی ویکسینز پشاور میں استعمال کی گئی ہیں اسی بیچ کی ویکسینز ایبٹ آباد، نوشہرہ، ٹانک، کوہاٹ اور مالاکنڈ ڈویژن کے تمام 7 اضلاع میں بھی استعمال ہوئی تھیں، اور وہاں ایسا کوئی واقع پیش نہیں آیا تھا۔ یہاں تک کہ پشاور کی حدود میں سرکاری اسکولوں سے تعلق رکھنے والے جن طلبہ نے پولیو کے قطرے پیے تھے ان کی طرف سے بھی کسی مسئلے کی شکایت سامنے نہیں آئی۔ اس افراتفری کی شروعات دارالقلم و دیگر چند نجی اسکولوں سے ہوئی، پتا چلا کہ ان اسکولوں کی جانب سے یہ سب کچھ پولیو مہم کو متاثر کرنے کے لیے سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا تھا۔

مفصل تحقیقاتی رپورٹ میں ان اسکولوں اور مقامی عطائیوں، رہائشیوں اور ناظمین کے نام بتائے گئے جو اپنی ہی لگائی ہوئی آگ کے شعلوں کو بھڑکا رہے تھے۔ تاہم ویڈیو کے منظرِ عام پر آجانے، رپورٹ جاری ہوجانے اور ڈاکٹروں کی جانب سے کسی بچے کی حالت خراب نہ ہونے کی متعدد وضاحتیں کرنے کے باوجود بھی اس مہم کو نقصان پہنچ چکا ہے۔

خیبر پختونخوا کے پولیو افسران کی اطلاع کے مطابق 7 لاکھ سے زائد گھرانوں نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کردیا ہے، جبکہ گزشتہ ماہ یہ تعداد 57 ہزار تھی۔ اس پروپیگنڈے کی وجہ سے صرف پشاور میں ہی پولیو کے قطروں سے انکار کرنے والوں کی شرح 79 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ سب سے بدتر بات یہ ہوئی کہ چمن میں فائرنگ کرکے ایک پولیو ورکر کو ہلاک اور ایک کو شدید زخمی کردیا گیا۔ اب یہ سننے میں آیا ہے کہ وفاقی حکومت نے غیر معینہ مدت کے لیے مہم اور پہلی بار بعداز مہم جائزاتی عمل کو روک دیا ہے۔ حقیقت سامنے آنے پر بھی یہ سب کیوں ہوا؟ اس سوال کے جواب کے لیے براہِ کرم مذکورہ فزکس کے قانون برائے جعلی خبر کا سہارا لیجیے۔

پولیو مہم کے خلاف مہم صرف خوف پیدا کرنے والے، ڈراموں اور افواہوں تک محدود نہیں تھی بلکہ اسے کم از کم ایک ٹی وی شو پر بھی جگہ دی گئی۔ اس شو میں میزبان نے اپنے ناظرین کو پولیو ویکسین سے وابستہ خطرات پر اپنی اعلیٰ پائے کی تحقیق کی مدد سے حیرت میں ڈالنے کا فیصلہ کیا۔

اپنے مؤقف کو سہارا دینے کے لیے انہوں نے جین اورئینٹ کو مدعو کیا جو امریکن فزیشن اینڈ سرجنز نامی ایسوسی ایشن کی ترجمان ہیں۔ اورئینٹ سے پولیو کے قطروں کے خلاف ان کے ادارے کے مؤقف اور ان خطرات کے بارے میں سوالات پوچھے گئے، اور ان کے ادارے کے خیال میں ان ٹیکوں سے فالج، آٹزم اور موت جیسے خطرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

اب جہاں یہ ادارہ بظاہر تو بڑا ہی قابلِ بھروسہ محسوس ہوا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک حد سے زیادہ آزادی پسند گروہ ہے جو سائنس اور ادویات کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ دیگر معاملات کے ساتھ یہ ادارہ ایچ آئی وی ایڈز سے انکاریت میں بھی کافی سرگرم ہے اور اس کا باضابطہ سا محسوس ہونے والا جریدہ بھی جعلی سائنس کا اہم ذریعہ ہے۔

پروگرام میں آگے کیا ہوا اس پر بات کریں تو ٹی وی اینکر پھر ریمنڈ فرانسز نامی شخص کا حوالہ دیتا ہے جو ٹیکوں کے بارے میں ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں۔ یہ نامور عطائی شخص اس بات پر بھی یقین رکھتا ہے کہ کینسر سے محض صحتمند غذا اور وٹامنز کے ذریعے بچا جاسکتا ہے۔

اینکر نے پولیو کے ٹیکوں کے موجد جونس سالک کے چند مخصوص حوالے بھی دیے اور کہا کہ یہ ٹیکہ امریکا میں فالج کے کیسز کا براہِ راست باعث بنا۔ اینکر نے یہ بات نہیں بتائی کہ سالک نے یہ بات ‘Cutter Incident’ پر ردِعمل دیتے ہوئے کہی تھی جس میں قطرے پینے والے اس لیے فالج اور پولیو کا شکار ہوئے کیونکہ ان کے بیچ خراب انداز میں تیار کیے گئے تھے۔ یہ واقعہ 1955ء کا ہے، جس کے کچھ عرصے بعد ہی ٹیکے کا کامیاب تجربہ کیا گیا اور ٹیکہ سازی میں کڑی نگرانی کی جانے لگی۔

انہوں نے ایک بدنام اور جھوٹی قرار دی گئی رپورٹ کا بھی ذکر کیا جس کے مطابق ہندوستان میں گیٹس فاؤنڈیشن کی جانب سے چلائی جانے والی انسداد پولیو مہم فالج کے 47 ہزار 50 کیسز کا باعث بنی تھی۔ ایک بار پھر عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس دعوے کی ہر طرح سے جانچ پڑتال کی گئی اور اس رپورٹ کو جھوٹا پایا۔ یقیناً قابل میزبان ان تمام حقائق سے آشنا ضرور ہوں گے مگر انہوں نے ان تمام باتوں کو نظر انداز کردیا جو ان کے خیال کی عکاسی نہیں کر رہے تھے۔

پولیو کا مسئلہ قومی ایمرجنسی سے کم نہیں، لیکن اس قسم کے عناصر کی کہیں سے مذمت کیوں نہیں کی جارہی ہے؟ جب بات اس قسم کے کینہ پرور پروپیگنڈے کی آتی ہے جو ہمارے بچوں کے مستقبل کے لیے کسی سنگین خطرے سے کم نہیں تب کہاں چلے جاتے ہیں سارے ’حب الوطن‘؟ میں یہ بھی لازمی طور پر پوچھنا چاہوں گا کہ وہ ٹیکہ کہاں ہے جو اس قسم کے وائرسوں سے جان چھڑادے؟


یہ مضمون 29 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں