کراچی کی مقامی عدالت میں غلط انجیکشن کے باعث ہلاک ہونے والی بچی نشوا کے کیس میں ملزمان کی ضمانت منسوخ کیے جانے پر وہ عدالت سے فرار ہوگئے۔

سٹی کورٹ میں نشوا ہلاکت کیس کی سماعت ہوئی جس میں عدالت نے ڈاکٹر عطیہ اور ڈاکٹر شرجیل کی ضمانت منسوخ کردی۔

جس کے بعد سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں ملزمان باآسانی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

مزید پڑھیں: کراچی: غلط انجیکشن کا شکار 9 ماہ کی بچی انتقال کرگئیں

خیال رہے کہ ملزمان نے عدالت سے عبوری ضمانت حاصل کررکھی تھی.

نشوا ہلاکت کیس میں عبوری چالان جمع

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے غلط انجیکشن سے بچی کی ہلاکت کے کیس میں نجی ہسپتال کے مالک، انتظامیہ اور میڈیکل اسٹاف کے خلاف اور ان کی جانب سے تفتیشی افسر کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر عبوری چالان جمع کروایا تھا۔

گذشتہ روز تفتیشی افسر نے کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 173 کے تحت ضمنی چالان مجسٹریٹ (شرقی) کی عدالت میں جمع کروایا اور حتمی چالان جمع کروانے کے لیے 15 روز کا وقت مانگ لیا۔

یہ بھی پڑھیں: نشوا کیس: کل تک مطالبات پورے نہ ہوئے تو احتجاج کریں گے، والد قیصر علی

عبوری چالان میں تفتیشی افسر سب انسپکٹر محمد سلیم خان نے ہسپتال انتظامیہ اور میڈیکل اسٹاف کے 13 گرفتار و فرار افراد کے نام شامل کیے۔

کیس میں گرفتار ملزمان میں نرسنگ انچارج عاطف جاوید، نرسنگ اسسٹنٹ آغا معز، خاتون اسٹاف سوبیا ارشد، ڈپٹی ایڈمنسٹریشن آفیسر احمد شہزاد جبکہ چیف میڈیکل سربراہ ڈاکٹر شرجیل حسین اور رات کی ڈیوٹی ڈاکٹر عطیہ احمد نے ضمانت حاصل کررکھی ہے۔

عبوری چالان میں تفتیشی افسر نے دارالصحت ہسپتال کے چیئرمین عامر چشتی، نائب چیئرمین سید علی فرحان، ڈائریکٹر عرفان اسلم ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شہزاد عالم، نرسنگ کے سربراہ ڈاکٹر رضوان عظیم اور سید حسین زیدی کو فرار قرار دیا ہے۔

تفتیشی افسر نے عبوری چالان میں نشاندہی کی کہ وہ نجی پستال گئے تھے، جہاں انہوں نے ثبوت جمع کیے، جس میں سی سی ٹی وی فوٹیج شامل ہیں، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سوبیا ارشد انجیکشن بھر رہی ہیں اور بعد ازاں نرسنگ اسسٹنٹ آغا معز نے وہ انجیکشن لڑکی کو لگایا۔

مزید پڑھیں: کراچی: غلط انجیکشن کا شکار 9 ماہ کی بچی انتقال کرگئیں

انہوں نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش میں احمد شہزاد، عاطف جاوید اور سوبیا نے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا، چالان میں بتایا گیا کہ لڑکی دوران علاج لیاقت نیشنل ہسپتال میں دم توڑ گئی تھی جبکہ لڑکی کی لاش سے نمونے حاصل کرکے انہیں جانچ کے لیے ڈاؤ یونیورسٹی بھیجا تھا۔

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ شکایت کنندہ، ملزمان اور عینی شاہدین سمیت 25 افراد کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔

بعد ازاں جج نے حتمی چالان جمع کروانے کے لیے تفتیشی افسر کو 5 مئی تک کا وقت دے دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں