فرشتہ قتل کیس کی جوڈیشل انکوائری کا آغاز، لواحقین کے بیانات قلمبند

اپ ڈیٹ 30 مئ 2019
پولیس حکام نے بھی بیانات قلمبند کروادیے۔ — فائل فوٹو: شٹراسٹاک
پولیس حکام نے بھی بیانات قلمبند کروادیے۔ — فائل فوٹو: شٹراسٹاک

اسلام آباد کے مضافاتی علاقے میں مبینہ ریپ کے بعد قتل کی جانے والی معصوم فرشتہ کے کیس کی جوڈیشل انکوائری کا آغاز کردیا گیا ہے۔

مذکورہ کیس سے متعلق ضلعی مجسٹریٹ نے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیتے ہوئے احکامات جاری کیے تھے، تاہم اب اس کی عدالتی تحقیقات چیف کمشنر آفس میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر وسیم کر رہے ہیں۔

انکوائری کے دوران فرشتہ کے لواحقین کا کہنا ہے کہ انہوں نے بچی کی گمشدگی کی رپورٹ جمع کروانے کے لیے 3 روز تک متعلقہ تھانے سے رابطہ کیا لیکن تھانے کے ایس ایچ او نے بات کرنے کی زحمت بھی نہیں کی گئی۔

تحقیقات کے پہلے مرحلے میں گرفتار پولیس افسران کے بیانات بھی ریکارڈ کر لیے گئے ہیں جبکہ دوسرے مرحلے میں پولی کلینک کے ڈاکٹرز اور دیگر کے بیانات بھی لیے جائیں گے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں 10 سالہ بچی کا زیادتی کے بعد قتل،اہلخانہ کا شدید احتجاج،2 ملزمان گرفتار

واضح رہے کہ جوڈیشل کمیشن کو 7 روز میں انکوائری رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 10 سالہ بچی فرشتہ کے اغوا، مبینہ ریپ اور قتل کے کیس میں ایس ایچ او شہزاد ٹاﺅن اسلام آباد کی گرفتاری میں تاخیر کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشنز اور انسپکٹر جنرل پولیس سے وضاحت طلب کرلی تھی۔

تاہم وزیراعظم کے نوٹس لینے کے بعد ایس ایچ او شہزاد ٹاؤن کو معطل کردیا گیا تھا جبکہ پولیس کے اعلیٰ حکام نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ایس ایچ او اور اس کیس کے تفتیشی افسر کو گرفتار کرلیا تھا۔

فرشتہ گمشدگی اور قتل

اسلام آباد کے علاقے شہزاد ٹاؤن کی رہائشی 10 سالہ فرشتہ 15 مئی کو گھر سے باہر نکلی لیکن واپس گھر نہ پہنچی۔

بچی کی گمشدگی کے بعد اہلِ خانہ نے اپنی مدد آپ کے تحت اس کی تلاش کی اور اندراجِ مقدمہ کے لیے پولیس سے رابطہ کیا لیکن پولیس نے اہلِ خانہ کی درخواست پر مقدمہ درج کرنے کے بجائے کہا کہ وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: فرشتہ قتل کیس: وزیر اعظم کے حکم پر پولیس افسران گرفتار

جس کے بعد رکنِ قومی اسمبلی کی مداخلت اور ان کی جانب سے مذکورہ معاملہ انسپکٹر جنرل پولیس محمد عامر ذوالفقار خان کے سامنے اٹھانے پر گمشدگی کے 4 روز بعد 19 مئی کو واقعے کا مقدمہ درج کیا گیا۔

مقدمے کے اگلے ہی روز بچی کی مسخ شدہ لاش تمہ گاؤں کی جھاڑیوں سے برآمد ہوئی جب گاؤں کے کچھ افراد نے لاش دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی۔

بعدازاں متاثرہ بچی کے والد غلام نبی نے اس کے کپڑوں کی مدد سے لاش کی شناخت کی۔

پولیس کے مطابق لاش 4 روز پرانی تھی اور امکان ظاہر کیا گیا کہ اسے گینگ ریپ اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا تاہم اس کی تصدیق اور لاش کی حتمی شناخت کے لیے ڈی این اے کے نمونے حاصل کرلیے گئے جبکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ آنا ابھی باقی ہے۔

مزید پڑھیں: ہری پور: جنسی زیادتی کے بعد 7 سالہ بچہ قتل

لواحقین کے احتجاج کرنے پر تھانہ شہزاد ٹاؤن کے ایس ایچ او کو معطل کردیا گیا جبکہ پولیس حکام نے مقدمہ درج کرنے میں تاخیر کی تردید کی۔

تاہم پولیس حکام نے قانونی کارروائی میں تاخیر کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف محکمہ جاتی تحقیقات کرنے کا بھی حکم دے دیا۔

علاوہ ازیں ضلعی مجسٹریٹ نے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیتے ہوئے احکامات جاری کردیے جس کے مطابق 10 سالہ فرشتہ کو نامعلوم افراد نے علی پور گاؤں میں 15 مئی کو اس کے گھر کے باہر سے اغوا کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں