آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل احمد شجاع پاشا۔ فائل تصویر
آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل احمد شجاع پاشا۔ فائل تصویر

اس بات کو چھوڑیں کہ خطرے کی گھنٹی کس کے لئے بج رہی ہے؟

ہم سب جانتے ہیں یہ کس کے لئے بج رہی ہے: ہم سب کے لئے- تاہم اس وقت بہتر سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟

بن لادن کمیشن کے سامنے جنرل پاشا کی گواہی نے معاملات کو مزید واضح کر دیا ہے-

آرمی کبھی بھی، کسی طور بھی سویلین بالادستی کے سامنے نہیں جھک سکتی- سویلین بدعنوان ہیں، نا اہل ہیں، حب الوطنی سے عاری اور احمق ہیں جبکہ آرمی نیک نیت، نقطہ نظر پر قائم اور یہ جانتی ہے کہ ہم سب کے لئے کیا بہتر ہے-

تو اب ہو گا کیا؟

کانفرنس، اجلاس، مشاورت، مباحثے، حکمت عملی، جنگی چالیں، عملی مصلحت، یہ سب وقت کا زیاں ہیں-

خدا کے واسطے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟

نواز شریف محتاط ہیں- وہ جانتے ہیں کہ ساری ذمہ داری ان پر ہے لیکن وہ ابھی ٹریگر دبانے کے لئے تیار نہیں ہیں-

تو لڑکے اب تک سب کچھ اپنے طریقے سے کرتے آئے ہیں- وہ افغانستان پر قبضہ چاہتے ہیں؟ کر لینے دیں- وہ تیراہ پر حملہ چاہتے ہیں؟ سو بسم اللہ- وہ غیر ملکی صحافیوں کو نکال باہر کرنا چاہتے ہیں؟ کر لینے دیں- وہ انڈیا پر ہلکا ویٹو قائم رکھنا چاہتے ہیں؟ وہ بھی کریں- ڈرون حملوں سے وہ متفق ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ دوسرے، ان سے نفرت کریں؟ بلکل بلکل-

اب مسئلہ یہ ہے کہ جتنا نواز شریف انتظار کریں گے وہ اتنا ہی حالات کی گرفت میں آتے جائیں گے-

اسامہ بن لادن رپورٹ کی لیک، اس نکتے کو تقویت پہنچاتی ہے- ہو سکتا ہے کسی نے یہ رپورٹ اچھی خاصی رقم کے عوض فرخت کر دی ہو- لیکن کیا یہ لڑکے کبھی اس بات کا یقین کریں گے؟

اور جب سازشوں کی ٹوپی آپ نے پہن رکھی ہو تو کچھ بھی ممکن ہے: یا تو پی ایم ایل-این نے ایسا لڑکوں کو نیچا دکھانے کے لئے کیا یا پھر پی پی پی نے کوئی گگلی کرائی ہے-

سازش کی ذرا اور گہرائی میں جائیں تو گم گشتہ صفحات ایک اور کہانی بیان کر رہے ہونگے: کہ لڑکوں میں سے ہی کسی نے یہ کارنامہ انجام دیا ہو، تا کہ جنرل کیانی کے لئے ایک اور دورانئے کے ممکنات کم ہو جائیں-

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حقیقت کیا ہے اور کیا نہیں: جیسا کہ جنرل پاشا نے انتہائی نخوت کے ساتھ یہ ظاہر کیا کہ جو یقین کر لیا گیا، سو کر لیا گیا، اور حقائق بھاڑ میں جائیں-

مسئلہ ایک بار پھر یہ آتا ہے کہ نواز شریف کے مناسب وقت کی کھڑکی کھلنے کے انتظار میں کہیں بہت ساری غلط کھڑکیاں ہی پہلے سے نہ کھل جائیں اور جو کہ کھلیں گی-

مثال کے طور پر، انتظار کرنے کے کیا خطرات ہیں، جبکہ نواز شریف کے خیال میں نۓ چیف تعلقات کو ازسرنو بحال کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں؟ جون سے نومبر، پانچ سالہ مدّت ختم ہونے میں بس چند مہینے ہی تو ہیں، پھر جلد بازی کی کیا ضرورت ہے؟

کیوں کہ واقعات اور حادثات یہاں ہوتے رہتے ہیں، بلکل اسامہ بن لادن رپورٹ لیک کی طرح-

اس سے پہلے کہ آپ کو اندازہ بھی ہو آپ آگ کے کھیل میں شامل ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ تمام عظیم حکمت عملی جن پر آپ کام کرنا چاہتے تھے اور بھی مبہم ہوتی چلی جائیں گی-

فرض کریں آپ نومبر تک انڈیا کے معاملے میں انتظار کرتے ہیں اس کا مطلب انڈینز اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرنے کی تیاری کر رہے ہونگے-

لیکن گزشتہ دنوں کچھ تحریک ہوئی ہے- لگتا ہے نواز شریف نے اپنے دو اہداف پر کام شروع کر دیا ہے، انٹیلی جنس اشتراک اور پولیس اصطلاحات-

پہلا سول-ملٹری کے عدم توازن کو نشانہ بناتا ہے دوسرا ایک ایسا چور دروازہ یا یوں کہہ لیں ایسی دافع درد دوا ہے جو پہلے ہدف کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے-

اس نکتے کی وضاحت کے لئے ایک بار پھر جنرل پاشا کی شہادت کی مدد لیتے ہیں، پیراگراف 469 سے:

"جہاں تک پولیس کے ساتھ معلومات کے تبادلے کا تعلق ہے، وہاں رازداری کی یقیناً تتشویش تھی- بہت سی واقعات ہیں جن میں پولیس سے کے ساتھ مشترکہ معلومات پر سمجھوتہ کرنا پڑا- لہٰذا آئی ایس آئی تنہا کام کرنے کو ترجیح دیتی ہے- یہ ضروری تھا کہ داخلی سیکورٹی اور آئی ایس آئی کے انسداد دہشتگردی ونگ کو حراست کے اختیارات دے دئے جاتے- ساتھ ہی پولیس کا ڈھانچہ دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے اور میرٹ کی بنیاد پر اسے ایک پیشہ وارانہ فورس بنانے کی ضرورت ہے"-

جو نکتہ یہاں معنی رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ " آئی ایس آئی تنہا کام کرنے کو ترجیح دیتی ہے"-

بس یہی نکتہ معنی رکھتا ہے کیوں کہ جنرل پاشا (اور یہ نہ سمجھیں کہ یہ ایک فرد کے خیالات ہیں) ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ حتمی طور پر کیا چاہتے ہیں: اپنی ایجنسی کے لئے اور زیادہ اختیارات-

لیکن لڑکے چونکہ کافی ہوشیار ہیں، وہ یہ بات براہ راست نہیں کہیں گے- وہ دوسروں پر اس بات کا الزام لگیں گے کہ وہ اتنے قابل نہیں ہیں- پاشا ہمیں بتاتے ہیں کہ پولیس بدعنوان ہے، نا اہل ہے اور سیاسی ہے، سول انٹیلی جنس کا بھی یہی حال ہے-

جیسا کہ ہم سب ایماندار، لائق اور غیر سیاسی پولیس اور سویلین انٹیلی جنس کا انتظار نہیں کر سکتے- ہم ایسا نہیں کر سکتے کیوں کہ دہشتگردی کے خطرات واضح اور موجود ہیں- آئی ایس آئی کو وہ اختیارات رسمی طور پر دے دیے جائیں جس کا بے جا دعویٰ ایجنسی خود ہی کر رہی ہے، پاشا نے سمجھایا-

ہے نہ ہوشیاری؟

نواز شریف کی یہ دوہری چال ایسے ہوشیاروں سے نمٹنے کے لئے ہے-

لڑکوں، وزیر اعظم یہ کھ رہے ہیں کہ انٹیلی جنس کے تبادلے اور ہم آہنگی کے معاملے کا حل نکالنا ہوگا- آپ جانتے ہیں، میں جانتا ہوں، سب جانتے ہیں- اور میں دوسرے اداروں کی نا اہلی کے حوالے سے آپ کی تشویش سمجھتا ہوں، چناچہ میں اس پر بھی کام کروں گا-

پولیس اور سویلین انٹیلیجنس میں اصطلاحات کے چور راستے کے ذریعے انٹیلی جنس اداروں میں ہم آہنگی ممکن ہو سکتی ہے-

کیا یہ کام کرے گا؟ ممکن ہے-

لیکن یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آرمی کتنی رکاوٹ کھڑی کر سکتی ہے اور کتنی رکاوٹیں کھڑی ہونگی؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آرمی، پاکستان کے اندر اپنا کس طرح کا کردار دیکھتی ہے، اور اس طرح ہم واپس ملٹری-سول عدم توازن کی طرف آ جاتے ہیں، اور پھر سوال وہی اٹھتا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟

اور شاید یہ کہ کیا بلی اپنے گلے میں گھنٹی باندھنے کی اجازت دے گی؟

انٹیلی جنس کے اکھاڑے میں آئی ایس آئی کا غلبہ ہی وہ ہتھیار ہے جس کے ساتھ یہ غیر متناسب سویلین-ملٹری توازن بنایا گیا ہے- اسے نکال باہر کریں اور آپ خود کو اداراتی تعلقات کی ایک بلکل مختلف دنیا میں پائیں گے-

ممکن ہے آرمی پسیج جاۓ- ایک بنیادی قومی مفاد، ملکی استحکام کو کچھ ایسا خطرہ لاحق ہے جسے فوج اکیلے ٹھیک نہیں کر سکتی- تو ہو سکتا ہے حالات فوج کو اس بات پر مجبور کریں کہ وہ عظیم قومی مفاد یا فقط ادارتی بقا کی خاطر اپنے شاہی استحقاق پر دوبارہ غور کرے-

فوج خود بھی جارحیت پسندی، دہشتگردی اور شدّت پسندی کا براہراست نشانہ بنتی رہی ہے- لیکن یہ بس امکان ہے- جنرل پاشا کی سویلینز کے لئے تحقیر کی وجہ سے بات اصل میں اٹکی ہوئی ہے-

اور اگر یہی معاملہ ہے تو خدا کے واسطے بلی کے گلے میں گھنٹی آخر کون باندھے گا ؟؟

سفر بخیر نواز شریف !!


ترجمہ: ناہید اسرار

تبصرے (1) بند ہیں

hafiz Jul 23, 2013 01:43pm
آرمی کی ان مہربانیوں سے سول سوسائیٹی یا سولائزڈ شہریوں کو پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں کیوں کہ وہ جمہوریت کےنفاذ میں خلوص دل سے یہ سب لُچ تل رہی ہے