محض انتظامی کارروائی کو جنسی ہراساں کے طور پر نہیں لیا جاسکتا، ہائیکورٹ

اپ ڈیٹ 02 جولائ 2019
اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسداد ہراساں قانون کی 
 وضاحت کردی—فائل فوٹو: اے پی پی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسداد ہراساں قانون کی وضاحت کردی—فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے انسداد ہراساں قانون کی وضاحت کرتے ہوئے کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں سے تحفظ فراہم کرنے والے محتسب کے پاس زیر التوا درخواستوں کو مسترد کردیا۔

ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی کہا کہ محض لغات میں موجود معنوں کو جنسی ہراساں کی وضاحت کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت نے 22 گریڈ کے افسر، محمد یونس دھاگا، اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن (او پی ایف) اسکولز کے سربراہ اور نجی آن لائن کیب سروس کے عہدیدار کے خلاف شکایات کو مسترد کردیا۔

عدالت کی جانب سے ان تینوں درخواستوں پر گزشتہ ماہ فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا، جسے اب جاری کیا گیا۔

مزید پڑھیں: جنسی ہراساں کرنے کا معاملہ، فنکاروں کا لکس ایوارڈزکابائیکاٹ

یہ شکایات کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں سے تحفظ فراہم کرنے کے ایکٹ 2010 کے تحت محتسب کے سامنے دائر کی گئی تھیں اور یہ محتسب سیکریٹریٹ میں زیر التوا تھیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مندرجہ بالا ایکٹ میں بیان کردہ ہراساں کے معاملے کو مخصوص رویے اور اشاروں کے لیے متعارف کروائی گئی قانون سازی کے طور پر نہیں لیا جاسکتا، جبکہ محض انتظامی کارروائی کو جنسی ہراساں کے طور پر نہیں لیا جاسکتا۔

یہاں اس بات کا ذکر کیا جاسکتا ہے کہ ماضی میں پبلک سیکٹر اداروں میں کچھ لوگوں کے خلاف ان کے ماتحتوں نے جنسی ہراساں کرنے کی شکایت کی تھیں، جس پر انہیں اس ایکٹ کی بنیاد پر ہٹا دیا گیا تھا۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق ڈائریکٹر نیوز اطہر فاروق کو اسی ایکٹ کے تحت ان کے خلاف شکایت درج ہونے کے بعد عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، جنہیں بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بحال کردیا تھا۔

تاہم ان تینوں کیسز میں مختصر حقائق اور پس منظر دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’ بیان کردہ سرکاری دفتر میں دائرہ کار سے متعلق معزز محتسب کی جانب سے ریکارڈ کی گئی وجوہات واضح طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ 2010 کے ایکٹ کی دفعات کی مجموعی طور پر غلط تشریح کی گئی اور اسے غلط بیان کیا گیا‘۔

انہوں نے فیصلہ دیا کہ ’تمام کیسز میں اعمال، رویے، طرز عمل یا اشارے جنسی نوعیت کے نہیں تھے، لہٰذا یہ معزز محتسب کے دائرہ کار میں نہیں آتے، اسی طرح تمام کیسز میں شکایات کو محتسب کی جانب سے نہیں دیکھا جاسکتا کیونکہ مبینہ فعل، طرز عمل یا رویے جنسی فطرت میں نہیں تھے‘۔

عدالتی فیصلے کے مطابق ’جب 2010 کے ایکٹ کو مکمل طور پر پڑھایا جاتا ہے تو یہ واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ محتسب کے سرکاری دفتر کو مخصوص مقصد جیسے ہراساں سے خواتین کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے‘۔

اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا کہ ’ہراساں کرنے کو 2010 کے ایکٹ کی شق 2 (ایچ) میں واضح کیا گیا ہے اور اسے واضح طور پر مختلف طریقوں جیسے ’ناپسندیدہ جنسی مشورہ‘، جنسی خواہشات کی درخواست‘، ’جنسی نوعیت کا عمل‘، ’جنسی رویوں سے گزرنا‘ کے طور پر بیان کیا گیا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات پر شوبز سے وابستہ خواتین کا ردعمل

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ ’لہٰذا یہ واضح ہے کہ کسی دوسرے شخص کی طرف جنسی تسکین کے مقصد سے کیا گیا اشارہ 2010 کے ایکٹ کے تناظر میں ’ہراساں‘ کے طور پر آئے گا، اسی طرح اس ایکٹ میں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے جسمانی طرز عمل کو جنسی طرز عمل کے طور پر بیان کیا گیا ہے‘۔

جنسی ہراساں اور دائرہ اختیار میں امتیاز کرنے سے متعلق عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ’ 2010 کے ایکٹ کے طور پر ہراساں مختلف صورت زبانی، غیر زبانی یا جسمانی ہوسکتا ہے اور یہ حالات اور حقائق پر منحصر ہے۔

تاہم فیصلے کے مطابق محتسب کے دائرہ کار کے تعین کے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ طرز عمل، رویہ یا اقدام وغیرہ، شکایات کا جنسی نوعیت کا ہونا اور سیکشن 2 (ایچ) میں بیان کردہ دیگر عوامل موجود ہوں۔

علاوہ ازیں عدالت نے محتسب کو مشورہ دیا کہ وہ شکایات پر ایکٹ کے مندرجہ بالا سیکشن کے مطابق سختی سے عمل یقینی بنائیں۔

تبصرے (0) بند ہیں