پاکستانی سنیما کی بحالی کا عمل کچھ عرصے سے جاری ہے اور فلمی منظرنامے پر نمودار ہونے والے کئی نئے فلم ساز اس بات کا حوالہ ہیں۔ انہی فلم سازوں میں سے ایک نام علی سجاد شاہ عرف ابو علیحہ کا بھی ہے، جن کی پہلی پاکستانی سائیکولوجیکل تھرلر فلم ’کتاکشا‘ نے حال ہی میں ریلیز کے بعد باکس آفس پر کامیابی حاصل کی ہے۔ اب ان کی اگلی فلم ’تیور‘ بھی ریلیز کے لیے تیار ہے، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں فلم سازی کا موسم بدل رہا ہے۔

فلم سازی

اس فلم کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر علی سجاد شاہ ہیں، جن کی شہرت فلم ’عارفہ‘ سے ہوئی تھی جو اب ’تیور‘ کے نام سے ریلیز ہوگی، فی الوقت فلیش فلم پروڈکشن کمپنی کے تحت ان کی فلم ’کتاکشا‘ ریلیز ہوکر کامیابی سمیٹ چکی ہے۔ میٹرو لائیو موویز نے اس کو ملک بھر میں ریلیز کیا۔ اس فلم کی سب سے بڑی خوبی اس کا کم بجٹ ہونا ہے، صرف 95 لاکھ میں بنائی گئی یہ ایک ایسی فلم ہے جس نے نمائش کے ابتدائی دنوں میں ہی اپنی لاگت پوری کرلی۔

فلم کتاکشا کے پوسٹرز
فلم کتاکشا کے پوسٹرز

اس فلم کی دوسری بڑی خوبی اس مرکزی مقام کا انتخاب ہے، جہاں یہ فلم زیادہ تر عکس بند کی گئی۔ اس جگہ کو کٹاس راج کہا جاتا ہے۔ یہ جغرافیائی اعتبار سے بہت اہمیت کی حامل جگہ ہے اور تاریخی لحاظ سے ہندوؤں کا متبرک مقام بھی ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ جس تفصیل سے اس مقام کو فلمایا جانا چاہیے تھا، وہ نہ ہوسکا لیکن پھر بھی غنیمت ہے کہ کسی کو تو اس کا خیال آیا کیونکہ یہ جگہ ہزاروں برس کا تاریخی پس منظر رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ کلر کہار، سون جھیل وغیرہ کے مقامات کو بھی فلم کی عکس بندی کے لیے منتخب کیا گیا، اس فیصلے سے فلم کے فریمز میں جان پڑگئی وگرنہ یہی کام کافی مہنگے گرافکس کے ذریعے کرنا پڑتا ہے، سو اس فلم کو اس کی زیادہ ضرورت نہیں پڑی۔

عام سے کیمرے اور ہلکے پھلکے گرافکس سے ہی فلم عکس بند کرلی گئی، سنیماٹوگرافی بھی ایسی جو آنکھوں کو بُری نہیں لگتی۔ اس فلم کے بعد پاکستان میں کروڑوں روپے کے بجٹ سے فلمیں بنانے کا خواب دیکھنے والے فلم سازوں کو غفلت کی نیند سے بیدار ہوجانا چاہیے۔

ہدایت کاری

یہ فلم بطور ہدایت کار بھی سجاد علی شاہ کی پہلی فلم ہے، جس میں انہوں نے بہت غیر معمولی کام تو نہیں کیا مگر کئی پہلوؤں سے متاثر ضرور کیا۔ فلم میں موسیقی کی ضرورت صرف پس منظر میں تھی، اس بات کو سمجھتے ہوئے انہوں نے گیتوں کا تکلف نہیں برتا جو بہت درست فیصلہ تھا۔

پس منظر کی موسیقی کے لیے بلال اللہ دتہ اور علی اللہ دتہ کی خدمات حاصل کی گئیں جنہوں نے اپنے کام کو بخوبی انجام دیا۔ سنیماٹوگرافی میں جنید محمود، کلر گریڈنگ میں شیخ معین الدین اور دیگر شعبوں میں تمام ہنرمندوں نے کافی اچھا کام کیا۔ فلم کی ایڈیٹنگ محمد منیب نے کی۔ کہانی میں مزید تدوین ہوسکتی تھی، جس کی طرف ہدایت کار کا دھیان نہیں گیا، لیکن اگر ایسا ہوجاتا تو اس سے فلم کو چار چاند لگ سکتے تھے۔

یہ فلم بطور ہدایت کار بھی ابو علیحہ (سجاد علی شاہ) کی پہلی فلم ہے
یہ فلم بطور ہدایت کار بھی ابو علیحہ (سجاد علی شاہ) کی پہلی فلم ہے

کم اداکاروں کے ساتھ اسکرپٹ سے انصاف کرنے کی یہ اچھی کوشش تھی، امید ہے کہ ہدایت کار آئندہ فلموں میں مزید بہتر انداز میں اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے کیونکہ جس اعتماد کے ساتھ انہوں نے یکے بعد دیگرے 2 فلمیں ریلیز کرنے اور تیسری فلم بنانے کا اعلان کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ علی سجاد شاہ بہت جلد فلمی صنعت کے مصروف ہدایت کاروں کی صف میں جاکھڑے ہوں گے کیونکہ ان کی سب سے اہم بات سنیما سے اُن کا جذباتی لگاؤ ہے۔

کہانی و اداکاری

اس فلم کے اسکرپٹ رائٹر بھی علی سجاد شاہ خود ہیں۔ بطور سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ اور قلم کار وہ کافی شہرت کے حامل ہیں، تاہم فلم کی کہانی میں اپنی صلاحیتوں سے بھرپور کام نہ لے سکے۔

فلم میں کردار سیدھے سیدھے آگے بڑھتے اور ختم ہوجاتے ہیں
فلم میں کردار سیدھے سیدھے آگے بڑھتے اور ختم ہوجاتے ہیں

فلم کی کہانی میں سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ فلم کا کوئی کلائمکس نہیں ہے، کردار سیدھے سیدھے آگے بڑھتے اور ختم ہوجاتے ہیں۔ چونکہ فلم ساز کی طرف سے اس فلم کو سائیکولوجیکل تھرلر کہا گیا ہے تو اس لیے تجسس کی اُمید کرنا یقینی تھا لیکن وہ تجسس فلم میں ناپید رہا، جس کی وجہ سے کچھ ناامیدی ہوئی۔ فلم میں کئی مواقع پر کہانی میں یکسانیت کا شائبہ بھی ہوا۔

فلم میں ایک ڈائیلاگ پنچ لائن کے طور پر استعمال ہوا کہ ’انسان کے اندر کا خوف ہی اس کو مار ڈالتا ہے۔‘ اس ڈائیلاگ سے مزید کھیلا جاسکتا تھا، بہرحال اس کے باوجود سب اداکاروں نے اپنے تئیں بطور فنکار اچھی کوشش کی۔ اداکاروں میں سب سے جاندار اداکاری مبین گبول اور سلیم معراج نے کی، جبکہ قاسم خان، نمرہ شاہد اور کرن تعبیر نے بھی بہتر فنِ اداکاری سے اپنے کرداروں کو نبھایا۔

فلم میں سب اداکاروں نے اپنے تئیں بطور فنکار اچھی کوشش کی
فلم میں سب اداکاروں نے اپنے تئیں بطور فنکار اچھی کوشش کی

نتیجہ

اس فلم سے کچھ تنازعات بھی جڑے دکھائی دیے جس میں سرِ فہرست فلم کے 2 مرکزی کردار جو 2 اداکاراؤں نمرہ شاہد اور کرن تعبیر نے نبھائے، ان کا فلم کی پروموشن میں شامل نہ ہونا تھا۔

ہماری فلمی صنعت جس نازک صورتحال سے گزر رہی ہے وہاں ابھی آپس کے اختلافات بُھلا کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات فلم سازوں اور فنکاروں دونوں کو سوچنی اور سمجھنی چاہیے۔

پاکستان میں اس نوعیت کی بننے والی فلموں میں یہ ایک بہتراضافہ ہے لیکن جس معیار کی ضرورت ہماری فلموں کو ہے وہاں تک پہنچنا ابھی باقی ہے۔ اگر فلم ساز زمینی حقائق کا ادراک رکھتے ہوئے فلموں کو بنائیں، عکس بندی کے لیے مقامی جگہوں کا انتخاب کریں اور کم بجٹ کو ذہن میں رکھیں تو پاکستان میں ناصرف کمرشل بلکہ پیررل یا آرٹ سنیما کی بحالی بھی ہوسکتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں