سعودی عرب سمیت 37 ممالک کا ایغور مسلمانوں سے متعلق چین کے مؤقف کا دفاع

اپ ڈیٹ 13 جولائ 2019
گزشتہ برس اکتوبر سے مقامی حکومت نے سفارت کاروں اور میڈیا کے اداروں کو ان جگہوں کا دورہ کروانے کا بھی آغاز کردیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
گزشتہ برس اکتوبر سے مقامی حکومت نے سفارت کاروں اور میڈیا کے اداروں کو ان جگہوں کا دورہ کروانے کا بھی آغاز کردیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

چین کے صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر اقوامِ متحدہ کے 37 ممالک سے تعلق رکھنے والے سفیروں نے چین کے دفاع میں ایک مراسلہ جاری کیا ہے جو مغرب کی جانب سے کی گئی تنقید کا ردِ عمل ہے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق یورپی ممالک کے سفرا کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا، کینیڈا، جاپان اور نیوزی لینڈ کے سفیروں نے ایک تحریر پر دستخط کیے تھے جس میں سنکیانگ میں مبینہ طور پر 10 لاکھ ایغور افراد کو حراستی مراکز میں رکھنے پر اعتراض کیا گیا تھا۔

چنانچہ مختلف ممالک پر مشتمل ایک گروہ، جس میں سعودی عرب، روس، نائیجیریا، الجیریا اور شمالی کوریا شامل ہے، نے بیجنگ کی طرف سے ردِ عمل جاری کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ایغور حراستی کیمپ: اقوام متحدہ کو کھلا خط ’بہتان‘ ہے، چین

مراسلے کے دستخط شدگان میں میانمار، فلپائن اور زمبابوے بھی شامل ہیں جس میں کہا گیا کہ ’ہم انسانی حقوق کے شعبے میں چین کی غیر معمولی کامیابیوں کو سراہتے ہیں‘۔

مراسلے میں کہا گیا کہ ’ہمارے علم میں یہ بات آئی کہ دہشت گردی، علیحدگی پسند اور مذہبی انتہا پسند گروہوں نے سنکیانگ میں بسنے والے نسلی گروہ کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سابقہ قیدی سنکیانگ میں موجود ان مقامات کو ’حراستی مراکز‘ قرار دیتے ہیں جہاں زیادہ تر مسلمان ایغور اور دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو چین کی اکثریتی قوم ہان سے مشابہت اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: ترکی کا چین سے ’حراستی مراکز‘ بند کرنے کا مطالبہ

ان چینی کیمپوں کا دفاع کرتے ہوئے مراسلے میں ان کیمپس کو ’ہنر کی تعلیم اور تربیت کے مراکز قرار دیا، اور ’اب تحفظ اور سلامتی سنکیانگ میں لوٹ چکی ہے۔

سفرا کے گروہ نے اس خط کو انسانی حقوق کی باضابطہ دستاویزات کے طور پر ریکارڈ رکھنے کی مطالبہ کیا جو جینیوا میں منعقدہ 41 ویں سیشن کے آخر میں پیش کیا گیا۔

قبل ازیں بیجنگ نے مغربی ممالک کی جانب سے لکھے گئے خط کو ’بدگوئی‘ قرار دیا ، خیال رہے کہ جیسا کو تیسا کے انداز میں جاری کیے گئے یہ خطوط اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے میں غیر معمولی ہے۔

اس سے قبل چین ان کیمپس کی موجودگی سے ہی انکار کرتا رہا ہے بعدازاں بین الاقوامی سطح پر اٹھنے والی آوازوں کے پیشِ نظر انہیں ’ہنر مندی کے تعلیمی مراکز‘ قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: چین: ‘ایغور اقلیت کو حراستی کیمپوں میں قید رکھنا خوفناک ہے

بعدازاں گزشتہ برس اکتوبر سے مقامی حکومت نے سفارت کاروں اور میڈیا کے اداروں کو ان جگہوں کا دورہ کروانے کا بھی آغاز کردیا تھا۔

اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی سربراہ مشیل بیچلیٹ نے حقائق تلاش کرنے کے کمیشن کی سنکیانگ تک رسائی کی درخواست کی تھی جس پر بیجنگ نے کہا کہ ان کا خیر مقدم ہے

تاہم تنظیم کا کہنا تھا کہ یہ دورہ صرف کچھ شرائط کی صورت میں ممکن ہے جس میں اہم مقامات تک بغیر کسی رکاوٹ کے رسائی بھی شامل ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں