مقبوضہ کشمیر: ہسپتالوں میں انٹرنیٹ کی بحالی کے مطالبے پر ڈاکٹر گرفتار

اپ ڈیٹ 28 اگست 2019
زیر حراست ڈاکٹر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیرمیں موجودہ صورتحال انسانی بحران پیدا کرسکتا ہے—فوٹو: بی بی سی
زیر حراست ڈاکٹر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیرمیں موجودہ صورتحال انسانی بحران پیدا کرسکتا ہے—فوٹو: بی بی سی

بھارتی حکام نے مقبوضہ کشمیر کے تمام ہسپتالوں اور میڈیکل سینٹرز کے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی بحالی کا مطالبہ کرنے والے ڈاکٹر کو گرفتار کرلیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیرکے ڈاکٹرعمر نے بھارتی حکومت سے انٹرنیٹ کی بحالی کا مطالبہ کیا تھا۔

مزیدپڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں 4 ہزار شہریوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، بھارتی مجسٹریٹ

ڈاکٹر عمر نے ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس پر درج تھا کہ ’یہ احتجاج نہیں ہے بلکہ ایک درخواست ہے، برائے مہربانی مقبوضہ کشمیرکے تمام ہسپتالوں اور میڈیکل سینٹر کے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ بحال کردیا جائے‘۔

گرفتاری سے قبل ڈاکٹر عمر نے بی بی سی سے بات کی اور خبردار کیا کہ مقبوضہ کشمیرمیں موجودہ صورتحال انسانی بحران پیدا کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ’ہم خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے مریضوں کو سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں انڈین نیشنل ہیلتھ پروٹیکشن اسکیم کے تحت مفت طبی سہولت فراہم کرتے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ’ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی عدم بحالی کی وجہ سے گزشتہ تین ہفتوں سے ضرورت مند مریضوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہیں‘۔

ڈاکٹر عمر نے واضح کیا کہ ’ہمارے علم میں آیا ہے کہ متعدد مریض ڈائیلیسز اور کیموتھراپی کے لیے ادویات اور علاج اپنی مدد آپ کے تحت کررہے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر خارجہ کا مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اقوام متحدہ کو ایک اور خط

انہوں نے بتایا کہ ’ہیلتھ کیئر اور انٹرنیٹ کے مابین تعلق یہ ہے کہ مذکورہ ہیلتھ اسکیم مکمل طور پر انٹرنیٹ پر مبنی ہے، اسکیم کے تحت ہر مریض کو ایک کارڈ جاری ہوتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب بھی مریض ڈاکٹر کے پاس معائنے کے لیے آتا ہے تو ڈاکٹر وہ کارڈ سویپ کرتا ہے اور تمام تفصیلات اسکرین پر نمایاں ہوجاتی ہیں‘۔

ڈاکٹر عمر نے بتایا کہ ’اسکرین پر نمایاں تفصیلات کی روشنی میں ڈاکٹر معائنہ اور مفت ادویات تجویز کرتا ہے جس کے بعد ہی وہ حکومتی میڈیکل اسٹور سے ادویات حاصل کرسکتا ہے‘۔

واضح رہے کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد نئی دہلی نے خطے میں مواصلات کے سارے نظام کو معطل کرکے کرفیو نافذ کردیا تھا۔

دوسری جانب بھارتی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں پابندیوں میں کمی لائی جاری ہے اور فون لائنزبتدریج بحال کی جارہی ہیں تاہم وادی میں تاحال پابندی کا سلسلہ جاری ہے۔

مزیدپڑھیں: مقبوضہ کشمیر کی صورتحال: وزیرخارجہ کا اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو خط

واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے 15 اگست 2019 کو بھارت کے یوم آزادی پاکستان سمیت دنیا بھر میں یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا تھا۔

خیال رہے کہ کشمیر میں دہائیوں سے بھارت کے خلاف بغاوت کی تحریک جاری ہے جس میں تقریباً ایک لاکھ سے زائد کشمیری جاں بحق ہوچکے ہیں۔

بھارت اور پاکستان دونوں ممالک کشمیر کا دعویٰ کرتے ہیں جس کے لیے ان کے درمیان جنگیں بھی لڑی جاچکی ہیں۔

آرٹیکل 370 کیا ہے

واضح رہے کہ آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے اور آرٹیکل ریاست کو آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتا ہے۔

اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔

بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے، تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔

مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 35 'اے' اسی آرٹیکل کا حصہ ہے جو ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق اور استحقاق کی تعریف کے اختیارات دیتا ہے۔

مزیدپڑھیں: 'مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت مسلم اکثریتی ریاست ہونے پر ختم کی گئی'

1954 کے صدارتی حکم نامے کے تحت آرٹیکل 35 'اے' آئین میں شامل کیا گیا جو مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو خصوصی حقوق اور استحقاق فراہم کرتا ہے۔

اس آرٹیکل کے مطابق صرف مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والا شخص ہی وہاں کا شہری ہو سکتا ہے۔

آرٹیکل 35 'اے' کے تحت مقبوضہ وادی کے باہر کے کسی شہری سے شادی کرنے والی خواتین جائیداد کے حقوق سے محروم رہتی ہیں، جبکہ آئین کے تحت بھارت کی کسی اور ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور مستقل رہائش اختیار کرنے کا حق نہیں رکھتا۔

آئین کے آرٹیکل 35 'اے' کے تحت مقبوضہ کشمیر کی حکومت کسی اور ریاست کے شہری کو اپنی ریاست میں ملازمت بھی نہیں دے سکتی۔

تبصرے (0) بند ہیں