نومسلم لڑکی نے عدالت میں تحفظ کی درخوست دائر کردی

اپ ڈیٹ 02 ستمبر 2019
نومسلم لڑکی کے مطابق 28 اگست کو اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور نام عائشہ رکھا — تصویر: شر اسٹاک
نومسلم لڑکی کے مطابق 28 اگست کو اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور نام عائشہ رکھا — تصویر: شر اسٹاک

سکھ مذہب ترک کرکے مسلمان ہونے والی لڑکی اور اس کے خاوند نے تحفظ فراہم کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کرلیا۔

نو مسلم لڑکی اور اس کے خاوند نے ندیم سرور ایڈووکیٹ کی وساطت سے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔

مذہب تبدیل کر کے مسلمان لڑکے سے شادی کرنے والی سکھ برادری سے تعلق رکھنے والی لڑکی جگجیت کور کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے حسان نامی لڑکے سے پسند کی شادی کی۔

درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ کسی نے انہیں اغوا نہیں کیا بلکہ انہوں نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا، ان کی عمر 19 سال ہے اپنا اچھا برا سوچ سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مبینہ جبری مذہب تبدیلی: پنجاب حکومت، سکھ برادری سے مذاکرات کرے گی

درخواست میں وفاقی حکومت، پنجاب حکومت، آئی جی پنجاب اور لڑکی کے گھر والوں کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ 28 اگست کو اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور نام عائشہ رکھا جبکہ ان کے والد اور بھائیوں کی جانب سے 'مجھے اور میرے شوہر کو ہراساں کیا جا رہا ہے'۔

نوبیہاتا لڑکی نے موقف اختیار کیا کہ پولیس روز میرے شوہر حسان کے گھر پر چھاپے مار رہی ہے، ہمیں ہراساں کیا جا رہا ہے اور گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ کہ امریکا اور بھارت کی ایما پر قومی اور بین الاقوامی میڈیا پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: کم عمری کی شادی اور جبری مذہب تبدیلی کے خلاف بل پیش

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ پولیس کو مجھے اور میرے شوہر کو ہراساں کرنے سے روکنے اور ہماری شادی کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے۔

درخواست گزار نے یہ بھی کہا کہ عدالت پیمرا کو زبردستی اسلام قبول کرنے کے حوالے سے چلنے والی بے بنیاد خبروں کی بندش کا حکم دے۔

نوبیہاتا جوڑے نے عدالت سے درخواست کی کہ عدالت آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت وفاقی حکومت، پنجاب حکومت اور پولیس کو نوبیاہتا جوڑے کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے۔

بعدازاں عدالت نے تحفظ فراہم کرنے کی درخواست پر سماعت 3 ستمبر کے لیے مقرر کردی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم نے ہندو لڑکیوں کے مبینہ اغوا اور جبری مذہب تبدیلی کا نوٹس لے لیا

قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ نے سکھ لڑکی سے پسند کی شادی کرنے والے نوجوان محمد حسان کی 7 ستمبر تک ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرلی۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس چوہدری محمد مشتاق نے محمد حسان کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

درخواست گزار کی جانب سے وکیل ندیم سرور عدالت میں پیش ہوئے تھے، جنہوں نے درخواست گزار کا موقف پیش کیا کہ انہوں نے اسلام قبول کرنے والی لڑکی جگجیت کور سے شادی کی جس کا نام تبدیلی مذہب کے بعد عائشہ رکھا گیا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اہلیہ کے والد اور بھائیوں کی جانب سے انہیں اور ان کی بیوی کو ہراساں کیا جارہا ہے جبکہ اہلیہ کے گھر والوں نے مقدمہ بھی درج کروا رکھا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس روزانہ ان کے گھر پر چھاپے مار رہی ہے، انہیں اور ان کے اہلِ خانہ کو ہراساں کیا جارہا ہے اور گرفتاریاں کی جارہی ہیں جس کی بنا پر خدشہ ہے کہ پولیس انہیں بھی گرفتار نہ کرلے لہٰذا درخواست ضمانت منظور کی جائے۔

مزید پڑھیں: بھارتی لڑکے کی پاکستانی لڑکی سے شادی

خیال رہے کہ ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) ننکانہ صاحب کی جانب سے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) پنجاب کو بھیجی گئی مفاہمتی یادداشت کے مطابق 28 اگست کو ننکانہ پولیس اسٹیشن میں 6 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی، جن پر 19 سالہ سکھ لڑکی جگجیت کور کے اغوا اور جبری مذہب تبدیلی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

مفاہمتی یادداشت میں کہا گیا کہ پولیس نے ملزمان کی تلاش شروع کی اور لاہور سے ایک ملزم کو گرفتار کیا جبکہ 3 نے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی، اس کے علاوہ دیگر 2 ملزمان تاحال مفرور ہیں۔

علاوہ ازیں سکھ لڑکی کے وکیل شیخ سلطان سے پولیس نے رابطہ کیا تھا، جس پر انہیں بتایا گیا کہ جگجیت کور نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور ان کا نام عائشہ رکھا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں