صلاح الدین ہلاکت کیس: ماورائے عدالت قتل کی تحقیقات کیلئے درخواست دائر

اپ ڈیٹ 07 ستمبر 2019
پنجاب پولیس نے اے ٹی ایم کارڈ میں مبینہ چوری کے الزام میں ملزم کو گرفتار کیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز
پنجاب پولیس نے اے ٹی ایم کارڈ میں مبینہ چوری کے الزام میں ملزم کو گرفتار کیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز

لاہور: پنجاب پولیس کی حراست میں ہلاک ہونے والے ذہنی معذور شخص صلاح الدین کے اہل خانہ سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ملاقات کی جبکہ اس معاملے پر عدالتی کمیشن بنانے اور 4برس کے دوران ماورائے عدالت قتل کی انکوائری رپورٹس منظر عام پر لانے کے لیے ایک وکیل نے بھی عدالت سے رجوع کرلیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صلاح الدین کے اہل خانہ سے ملاقات کی، اس دوران وزیرقانون راجا بشارت، انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس عارف نواز اور صلاح الدین کے وکیل حسان نیازی سمیت دیگر لوگ موجود تھے۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے صلاح الدین کے اہل خانہ سے ملاقات کی—اسکرین شاٹ
وزیراعلیٰ پنجاب نے صلاح الدین کے اہل خانہ سے ملاقات کی—اسکرین شاٹ

وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات میں صلاح الدین کے والد نے 8 مطالبات سامنے رکھے اور کہا کہ محکمہ پولیس میں ریفامز ناگزیر ہیں میں صلاح الدین جیسے تمام معصوم اور بے گناہوں کو بچانا چاہتا ہوں۔

والد کا کہنا تھا کہ صلاح الدین کی قبرکشائی کی جائے تاکہ دوبارہ پوسٹ مارٹم کرکے حقائق سامنے لائے جاسکیں جبکہ صلاح الدین کے قتل میں ملوث ایس پی حبیب کو معطل کیا جائے۔

مزید پڑھیں: صلاح الدین ہلاکت کیس: جوڈیشل انکوائری کا حکم، ڈی پی او معطل

ساتھ ہی انہوں نے پولیس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، جس پر وزیراعلیٰ پنجاب نے شفاف عدالتی تحقیقات کروانے کی یقین دہانی کروادی۔

ملاقات کے دوران عثمان بزدار نے کہا کہ معاملے کی انکوائری رپورٹ کے بعد انسداد دہشت گردی کی دفعات لگانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ آپ کو انصاف دلانا میری ذمہ داری ہے، آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے نئے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر(ایس او پیز) بنائے جائیں گے اور مستقبل میں اس طرح کا کوئی واقعہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

جوڈیشل کمیشن کے قیام کیلئے درخواست دائر

قبل ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایک وکیل کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی، جس میں استدعا کی گئی کہ ذہنی معذور شخص صلاح الدین ایوبی کی زیرحراست موت پر جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے پنجاب حکومت کو ہدایات جاری کی جائیں۔

ساتھ ہی یہ بھی استدعا کی گئی کہ 4 برس کے دوران ماورائے عدالت قتل کی انکوائری رپورٹس کو عوام کے سامنے لائی جائیں۔

ایڈووکیٹ ندیم سرور کی جانب سے جمع کروائی گئی تحریری درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ 'زیرحراست تشدد، ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں پنجاب پولیس کا ٹریڈ مارک بن چکی ہیں'۔

عدالت عالیہ میں دائر اس درخواست میں وفاقی وزارت انسانی حقوق، پنجاب کے چیف سیکریٹری، انسپکٹر جنرل آف پولیس اور ریجنل پولیس افسر بہاولپور کو فریق بنایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پولیس نے صلاح الدین ایوبی کو تشدد کا نشانہ بنایا، والد کا دعویٰ

درخواست میں موقف اپنایا گیا صلاح الدین ایوبی کی موت رحیم یار خان پولیس کی حراست میں ہوئی اور پوسٹ مارٹم رپورٹ ثابت کرتی ہے کہ ان کے جسم پر بدترین تشدد کیا گیا، یہی نہیں بلکہ کچھ روز بعد ایک اور شہری عامر بھی لاہور کی شمالی کینٹونمنٹ پولیس کی حراست میں ہلاک ہوگیا۔

وکیل نے کہا کہ یہ ظلم و جبر کے ان واقعات سے شہریوں میں خوف اور دہشت کی لہر پھیل گئی اور یہ معاملہ عوام کی اہمیت حاصل کرگیا، لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ وہ 'پنجاب ٹریبونلز آف انکوائری آرڈیننس 1969' کے تحت ایک کمیشن یا انکوائری کمیشن فوری طور پر تشکیل دے۔

انہوں نے عدالت سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ متعلقہ حکام کو ہدایت دیں کہ وہ 2015 سے اب تک ہونے والے ماورائے عدالت قتل اور زیرحراست اموات کی انکوائری رپورٹس جاری کریں اور ان میں ملوث پولیس حکام کے خلاف لیے گئے اقدامات کے بارے میں بتائیں۔

صلاح الدین ہلاکت کیس

واضح رہے کہ گزشتہ روز آٹومیٹک ٹیلر مشین (اے ٹی ایم) میں چوری کے دوران 'عجیب حرکتیں' کرکے سوشل میڈیا پر مشہور ہونے والا شخص پنجاب پولیس کی حراست میں ہلاک ہوگیا تھا۔

ضلعی پولیس کے ترجمان ذیشان رندھاوا نے واٹس ایپ کے ذریعے پیغام جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ دوران حراست صلاح الدین کی حالت اچانک بگڑ گئی تھی اور وہ ہسپتال لے جاتے ہوئے ہلاک ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: اے ٹی ایم سے کارڈ چوری کے دوران کیمروں کو زبان چڑانے والا ملزم گرفتار

انہوں نے بتایا تھا کہ اے ٹی ایم چوری میں ملوث شخص حراست کے دوران پاگلوں والی حرکتیں کر رہا تھا، اس کی حالت بگڑ جانے پر اسے شیخ زید میڈیکل کالج ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اس کی ہلاکت کی تصدیق کی۔

بعد ازاں رحیم یار خان سٹی اے ڈویژن پولیس نے دورانِ حراست ہلاک ہونے والے صلاح الدین کے والد کی درخواست پر اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) محمود الحسن، تفتیشی افسر سب انسپکٹر شفاعت علی اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) مطلوب حسن کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے صلاح الدین کی پولیس حراست میں ہلاکت کے معاملے پر جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا تھا اور ڈی پی او کو معطل کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں