مل کر بچھڑنے کی اچھی داستان کس کو پسند نہیں ہوگی؟ یہی وجہ ہے کہ ہماری خواہش ہے کہ نیچے دی گئی کہانی کے کردار ایک بار پھر آپس میں مل سکیں۔

بھارتی تاریخ دان اور مصنفہ آنچل ملہوترا نے ٹوئٹر پر اپنی ایک طالبہ نوپور مروہ کی کہانی کو شیئر کیا جو اس کی دادی اور ان کی بچھڑ جانے والی سہیلی کے بارے میں تھی۔

یہ دونوں پاکستان بننے کے بعد ایک دوسرے سے الگ ہوگئے تھے اور اس موقع پر انہوں نے سونے کے جھمکے کی جوڑی کا ایک، ایک حصہ آپس میں ' ہمیشہ برقرار رہنے والی دوستی کی علامت' کے طور پر بانٹ لیا تھا۔

آنچل ملہوترا نے لکھا 'نوپور کی دادی کرن بالا مروہ، 1947 میں 5 سال کی تھیں اور ان کی سہیلی نوری رحمان 6 سال کی تھی، دونوں جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ سے تعلق رکھتی تھیں، پاکستان بننے کے بعد نوری کے خاندان نے پاکستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا، اور کرن اور نوری نے سونے کے جھمکوں کی جوڑی کو آپس میں بانٹ لیا'۔

اسکرین شاٹ
اسکرین شاٹ

انہوں نے مزید لکھا 'سات دہائیوں بعد، جب نوپور نے اپنی دادی سے اسکول کے ایک پراجیکٹ کے لیے تقسیم برصغیر کے بارے میں پوچھا، تو کرن مروہ نے اپنے کپ بورڈ سے ایک جھمکے کو نکالا اور ورثے کے طور پر اس کے حوالے کردیا۔ انہوں نے یہ جھمکا اس توقع کے ساتھ اتنے برسوں تک سنبھالے رکھا تھا، ایک دن وہ اپنی سہیلی سے پھر مل سکیں گی'۔

اسکرین شاٹ
اسکرین شاٹ

یہ داستان آنچل ملہوترا نے کئی ٹوئٹس میں شیئر کیں اور ایک اور ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا 'آنسوﺅں سے بھری آنکھوں کے ساتھ کرن نے تسلیم کیا کہ دہائیوں پہلے بچھڑ جانے والی سہیلی سے متاثر ہوکر دادی نے اس کا نام نوپور رکھا، اس بارے میں نوپور نے ایک نوٹ میں لکھا اس وقت علم ہوا کہ وہ مجھے اکثر نوری کیوں کہتی تھیں۔ یہ کرن اور نوری کے جھمکوں کی مکمل جوڑی نہیں اور میں اسے دیکھنا چاہتی ہوں، میں اکثر خواب میں اس جوڑی کو دیکھتی ہوں، اور یہ کہانی بہت واضح ہے'۔

اسکرین شاٹ
اسکرین شاٹ

آنچل ملہوترا نے پاکستان کے ٹوئٹر صارفین سے درخواست کی وہ جھمکوں اس جوڑی اور سہیلیوں کو ایک بار پھر ملائیں 'جو لوگ ان پیغامات کو سرحد کی دوسری جانب پڑھیں، اگر انہوں نے اپنے خاندان اور دادی/نانی نوری سے یہ کہانی سن رکھی ہو، جن کے پاس ایک جھمکا موجود ہے، تو رابطہ کریں۔ اگر یہ ان کی زندگیوں کے آخری برس ہیں تو کرن اور نوری کو ایک بار پھر ملانا چاہیے'۔

اسکرین شاٹ
اسکرین شاٹ

اب سوال یہ ہے کہ سوشل میڈیا یہ جادو کرسکے گا؟

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں