'افغان طالبان کا وفد آج اسلام آباد کا دورہ کرے گا'

اپ ڈیٹ 02 اکتوبر 2019
طالبان کا وفد ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں پاکستان آئے گا — فائل فوٹو: اے پی
طالبان کا وفد ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں پاکستان آئے گا — فائل فوٹو: اے پی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغان امن عمل کو معطل کرنے کے اعلان کے بعد پہلی مرتبہ افغان طالبان کا ایک وفد آج (2 اکتوبر) کو اسلام آباد کا دورہ کرے گا۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اس حوال سے طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ طالبان وفد کی قیادت گروپ کے بانیوں میں سے ایک ملا عبدالغنی برادر کریں گے اور دارالحکومت میں پاکستانی حکام کے ساتھ 'اہم امور' پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

تاہم اب تک حکومتی سطح پر اس حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری کرکے ان کی آمد کی تصدیق نہیں کی گئی۔

مزید پڑھیں: طالبان سے مذاکرات کی بحالی کیلئے زلمے خلیل زاد اسلام آباد میں موجود

واضح رہے کہ طالبان حکام نے حالیہ دنوں میں روس، چین اور ایران کا بھی دورہ کیا تھا۔

یہاں یہ واضح رہے کہ امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد افغان مفاہمتی عمل کی بحالی کے سلسلے میں پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے ساتھ بات چیت کے لیے پہلے ہی اسلام آباد میں موجود ہیں۔

اس حوالے سے امریکا میں موجود سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان، طالبان رہنما ملا برادر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ سے اسلام آباد لانے کی کوشش کررہا تھا تاکہ ممکنہ طور پر زلمے خلیل زاد سے ملاقات کروائی جاسکے۔

ادھر ایک طالبان عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ یہ وفد پاکستان کی قیادت کو امریکا کے ساتھ ختم ہونے والے مذاکرات کی وجوہات کے بارے میں آگاہ کرے گا، جس کا مقصد امریکی اور دیگر غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بدلے میں طالبان سے سیکیورٹی ضمانت لینا تھا۔

طالبان عہدیدار کا کہنا تھا کہ طالبان کا نیویارک میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات سے قبل وزیراعظم عمران خان کے حالیہ بیانات پر عمل کرنے کا منصوبہ ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ امریکی صدر کو دوبارہ مذاکرات میں شامل ہونے پر رضامند کرنے کی کوشش کریں گے۔

علاوہ ازیں افغان صدر کے ترجمان اشرف غنی سے اس معاملے پر فوری رابطے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے کوئی رد عمل نہیں دیا۔

یاد رہے کہ افغانستان میں 18 سالہ طویل جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا اور طالبان کے مابین کئی ماہ سے جاری امن مذاکرات گزشتہ ماہ کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے قریب تھے، تاہم امریکی صدر نے اچانک اسے معطل کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا سے مذاکرات معطل، طالبان وفد روس پہنچ گیا

بعدازاں امریکی کانگریس کمیٹی کی جانب سے طلب کیے جانے پر زلمے خلیل زاد نے اراکین کانگریس کو ایک خفیہ بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ طالبان کے ساتھ معاہدہ ختم ہوچکا۔

علاوہ ازیں انہوں نے حال ہی میں وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکا کے موقع پر ان سے بھی ملاقات کی تھی اور طالبان کے ساتھ مذاکرات معطل ہونے سے قبل ایک سال سے جاری بات چیت میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔

افغان امن عمل منسوخ

8 ستمبر کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کر کے سب کو حیران کردیا تھا کہ انہوں نے سینئر طالبان قیادت اور افغان صدر اشرف غنی کو کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کی دعوت دی تھی، تاہم آخری لمحات میں انہوں نے طالبان کے ایک حملے میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد کی ہلاکت پر یہ مذاکرات منسوخ کردیے تھے۔

اس پر ردِ عمل دیتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کا سلسلہ معطل کردیا تاہم اب امریکا کو پہلے کے مقابلے میں غیر معمولی نقصان کا سامنا ہوگا لیکن پھر بھی مستقبل میں مذاکرات کے لیے دروازے کھلے رہیں گے۔

امریکا کے ساتھ مذاکرات منسوخ ہونے کے بعد طالبان وفد 14 ستمبر کو روس بھی گیا تھا، جس کے بارے میں طالبان رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ دورے کا مقصد امریکا کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کی کوشش نہیں بلکہ امریکا کو افغانستان سے انخلا پر مجبور کرنے کے لیے علاقائی حمایت کا جائزہ لینا ہے۔

بعد ازاں امریکا کے ساتھ مذاکرات معطل ہونے کے بعد طالبان وفد نے 29 ستمبر کو بیجنگ کا دورہ کیا تھا اور چینی نمائندہ خصوصی ڈینگ ژی جون سے ملاقات کی تھی۔

واضح رہے کہ اگر طالبان اور امریکا کے درمیان یہ معاہدہ ہوجاتا تو ممکنہ طور پر امریکا افغانستان سے اپنے فوجیوں کو بتدریج واپس بلانے کا لائحہ عمل طے کرتا جبکہ طالبان کی جانب سے یہ ضمانت شامل ہوتی کہ افغانستان مستقبل میں کسی دوسرے عسکریت پسند گروہوں کے لیے پناہ گاہ نہیں ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں