‘ججز احتساب سے مستثنیٰ نہیں، سخت ترین احتساب ہونا چاہیے‘

اپ ڈیٹ 10 اکتوبر 2019
چیف جستس اسلام آباد ہائی کورٹ کے مطابق ججز کو خوف یا حمایت سے بالاتر ہو کر فیصلہ سنانا چاہیے—فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ کورٹ ویب سائٹ
چیف جستس اسلام آباد ہائی کورٹ کے مطابق ججز کو خوف یا حمایت سے بالاتر ہو کر فیصلہ سنانا چاہیے—فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ ججز بھی احتساب سے مستثنیٰ نہیں، عدلیہ اور قانونی نظام میں شفافیت کے لیے ان کا سخت ترین احتساب ہونا چاہیے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (آئی ایچ سی بی اے) کے تحت منعقد سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی سے مراد یہ ہے کہ ان کے فیصلے کسی دباؤ کا نتیجہ نہ ہوں اور کسی خوف یا حمایت سے بالاتر ہو کر فیصلہ کیا جائے۔

مزید پڑھیں: 'مجھے عدالتوں سے انصاف کی امید نہیں'

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ججز کو ’مشہور ہونے والا‘ فیصلہ نہیں سنانا چاہیے بلکہ انہیں شواہد کی روشنی میں فیصلہ دینا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ بعض ’پریشر گروپس اور طاقتیں‘ ہیں جو فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں لیکن ججز کو کسی بھی فیصلے پر دباؤ قبول نہیں کرنا چاہیے۔

سوشل میڈیا پر کردار کشی سے متعلق جعلی خبریں اور معلومات پر انہوں نے کہا کہ یہ ایک نیا مسئلہ ابھرا ہے جو عدالتی نظام پر اثر انداز ہورہا ہے۔

ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی ایسے حربوں کی پرواہ نہیں کی جبکہ کھلے دماغ اور میرٹ کی بنیاد پر اپنے فیصلے سنائے۔

یہ بھی پڑھیں: 'بدقسمتی سے انصاف کا شعبہ پارلیمنٹ کی ترجیحات میں شامل نہیں'

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سوشل میڈیا گزشتہ 10 برس میں بہت وسعت اختیار کرگیا اور روایتی میڈیا کو چینلج کررہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’طاقتور گروپس‘ سوشل میڈیا کے ذریعے ججز اور عدالتی نظام پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میرٹ کے خلاف ’اثر انداز‘ ہو کر فیصلے دینے سے لوگوں کا اعتماد عدلیہ سے اٹھ جائے گا، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ’دین اسلام بھی قانون کی بالادستی کا درس دیتا ہے‘۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ضلعی عدالتوں کی حالت بدترین ہیں، 1980 کے بعد سے ضلعی عدالتوں کا کردار متاثر نہیں رہا اور حکومت نے بھی ضلعی عدالتوں کو بہتر بنانے کے لیے کوئی توجہ نہیں دی، تاہم انہوں نے مذکورہ معاملہ وفاقی حکومت کے سامنے اٹھایا ہے۔

مزید پڑھیں: مفت سہولیات دیکر فیصلہ عوام پر چھوڑا جائے کہ اسکول جانا ہے یا مدارس، سپریم کورٹ

واضح رہے کہ 13 اپریل کو چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ بدقسمتی سے انصاف کا شعبہ پارلیمنٹ کی ترجیحات میں شامل نہیں جبکہ فوری اور سستا انصاف فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جج بنا تو پہلے دن سے ہی مشن تھا کہ مقدمات کے جلد فیصلے کیے جائیں، بار میں وکلا مجھے اور ساتھی ججز کو جنون گروپ کہتے تھے۔

انہوں نے شکوے کا اظہار کیا تھا کہ بدقسمتی سے انصاف کا شعبہ پارلیمنٹ کی ترجیحات میں شامل نہیں، جوڈیشل پالیسی بہتر بنانے کے لیے سفارشات اور ترامیم کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا، عدلیہ کی طرح پارلیمنٹ اور انتظامیہ کو بھی انصاف کے شعبے میں بہتری کے لیے ذمہ داری لینا ہوگی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں