ایف اے ٹی ایف اجلاس میں پیش کرنے کیلئے عملدرآمد رپورٹ تیار

اپ ڈیٹ 10 اکتوبر 2019
مالیاتی اداروں نے ہدایات پر موثر عمل کرنے کے لیے اصلاحی اقدامات بھی اٹھائے — فائل فوٹو: ایف اے ٹی ایف ویب سائٹ
مالیاتی اداروں نے ہدایات پر موثر عمل کرنے کے لیے اصلاحی اقدامات بھی اٹھائے — فائل فوٹو: ایف اے ٹی ایف ویب سائٹ

اسلام آباد: فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا آئندہ اجلاس 12 سے 15 اکتوبر تک پیرس میں ہوگا، جس کے لیے پاکستان اپنی عملدرآمد رپورٹ تیار کرچکا ہے اور اسے وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر پیش کریں گے۔

اجلاس میں پاکستان کا معاملہ 14 اور 15 اکتوبر کو زیر غور آئے گا جس میں شرکت کے لیے پاکستانی وفد 13 اکتوبر کو پیرس روانہ ہوگا۔

اسی حوالے سیکیورٹی ایکسچینچ کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی تیار کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ کمیشن کی جانب سے جامع ہدایات کی بدولت مالیاتی ادارے ایک سال میں 219 مشتبہ ٹرانزیکشن رپورٹس (ایس ٹی آرز) فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ 8 سال میں صرف 13 ایس ٹی آرز جاری کی گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کا مستقبل 3 جائزوں پر منحصر

ایف اے ٹی ایف کی 40 تجاویز اور اس کے معیارات سے ہم آہنگ ہونے کے لیے کمیشن نے جون 2018 میں ایک ہدایت نامہ ترتیب دیا تھا جسے ایس ای سی پی اے ایم ایل/سی ایف ٹی ریگولیشنز کہا جاتا ہے۔

چانچہ ایس ای سی پی نے 72 سیکیورٹیز بروکرز، 27 نان بینکنگ فنانشل کمپنیز، 13 انشورنس کمپنیوں اور 55 انتہائی خطرناک تنظیموں کے کیسز میں انسداد منی لانڈرنگ (اے ایم ایل) اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کی روک تھام (سی ایف ٹی) کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے 167 معائنے کیے۔

ایس ای سی پی رپورٹ میں کہا گیا کہ مذکورہ ہدایات پر عملدآمد نہ ہونے پر عائد کردہ جرمانوں کے علاوہ مالیاتی اداروں نے ہدایات پر موثر عمل کرنے کے لیے اصلاحی اقدامات بھی اٹھائے۔

اس کے علاوہ متعدد مالیاتی اداروں نے کالعدم شخص کی نشاندہی کے لیے خود مختار اسکریننگ سافٹ ویئرز بھی مقرر کیے ہیں، اس کے ساتھ یہ ادارے آن لائن ایس ٹی آرز فائل کرنے کے لیے مالیاتی نگرانی یونٹ (ایف ایم یو) اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے اے ایم ایل سسٹم تک رسائی بھی کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان کو 'ایف اے ٹی ایف' بلیک لسٹ میں ڈالنے کی بھارتی سازش ناکام،خطرہ برقرار

رپورٹ کے مطابق ایس ای سی پی نے کامیابی کے ساتھ سب کے لیے ایک جیسے نقطہ نظر سے اسٹاک اور کموڈیٹیز بروکرز، این بی ایف سیز، مضاربہ اور انشورز/تکافل آپریٹرز پر مشتمل مالیاتی سیکٹر میں اے ایم ایل/سی ایف ٹی کے ٹھوس نفاذ تک کا سفر کیا۔

ایس ای سی پی کا کہنا تھا کہ فنانشل مانیٹری یونٹ منی لانڈرز اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کرنے والوں کی جانب سے ممکنہ خطے کو جانچنے کے لیے وزارتوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، ایس بی پی اور ایس ای پی سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اشتراک کررہا ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ سلسلہ وار آگاہی مہم اور کوششوں کی بدولت اداروں کی سطح پر عملدرآمد میں بہتری آئی ہے۔


یہ خبر 10 اکتوبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں