دوسرا آپشن نہیں چھوڑا، ان ہاؤس تبدیلی ہمارا درد سر نہیں، مولانا فضل الرحمٰن

اپ ڈیٹ 15 اکتوبر 2019
مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن جماعتوں کا شکریہ ادا کیا—فائل/فوٹو: ڈان
مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن جماعتوں کا شکریہ ادا کیا—فائل/فوٹو: ڈان

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے آزادی مارچ کے مطالبات کے حوالے سے کہا ہے کہ سیاست میں بات چیت کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں جبکہ ان ہاؤس تبدیلی ہمارا درد سر نہیں ہے کیونکہ ہم نے دوسرا آپشن رکھا ہی نہیں ہے۔

اسلام آباد میں نیشنل پارٹی کے سربراہ سینیٹر میر حاصل بزنجو سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نیشنل پارٹی کی جانب سے حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

میر حاصل بزنجو نے اس موقع پر کہا کہ کہا گیا کہ اپوزیشن جماعتیں مولانا صاحب کے ساتھ نہیں ہیں، ایسا پروپیگنڈا کر کے اپوزیشن کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کے بعد پہلی ملاقات میں ہی ہماری تجویز تھی کہ یہ دھاندلی زدہ انتخابات ہیں اس لیے ان اسمبلیوں میں جانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی بات مان کر اسمبلیوں میں گئے۔

مزید پڑھیں:مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ میں ہر ممکن تعاون کریں گے، بلاول بھٹو

سینیٹر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ ہمارا موقف ہے کہ موجودہ حکومت جعلی ہے، وقت اور حالات نے ثابت کر دیا ہے، یہ منتخب حکومت نہیں ہے اور کوئٹہ سے قاسم سوری کا الیکشن اس کا ثبوت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں مولانا کا ساتھ دینا ہوگا اور ہماری پارٹی مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ کھڑی ہے تاہم جلد ہی پارٹی کی سطح پر ساتھ دینے کا اعلان کریں گے اور مولانا صاحب کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں گے۔

پارٹی کے عہدیداروں کو دھمکیاں دینا بند کردیا جائے، مولانا فضل الرحمٰن

مولانا فضل الرحمٰن نے آزادی مارچ کی حمایت پر حاصل بزنجو کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ تمام اپوزیشن جماعتیں ایک پیج پر ہیں کہ پی ٹی آئی جعلی مینڈیٹ پر حکومت میں آئی اور ہمارے وزیراعظم کو بیرون ملک بھی وزیراعظم والا پروٹوکول نہیں ملتا۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا ان کو وزیراعظم نہیں سمجھتی اور میں پاکستانیوں کی جانب سے پوری دنیا کو پیغام دیتا ہوں کہ عمران خان سے بطور وزیراعظم مذاکرات نہ کیے جائیں۔

شیخ رشید کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 27 اکتوبر کو مقبوضہ جموں و کشمیر سے اظہار یک جہتی کریں گے اور مارچ شروع ہو جائے گا اور 31 اکتوبر کو ملک بھر سے قافلے اسلام آباد میں داخل ہوں گے، ہمارے ساتھ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:حکومت اور مولانا کے مابین بات چیت کا سلسلہ جاری ہے، شیخ رشید

انہوں نے کہا کہ ‘بدقسمتی سے ہمارے ضلعی عہدیداروں اور کارکنوں پر دباؤ ڈالا جارہا ہے اور دھمکیاں دی جارہی ہیں ان سے براہ راست رابطہ کرکے ترغیب دی جارہی ہے کہ مارچ میں شامل نہ ہوں’۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘ہمارے کارکنوں سے براہ راست رابطے بند کر دیے جائیں کیونکہ رابطے مرکزی سطح پر ہوتے ہیں اور ہماری جماعت کے اندرونی معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کریں گے’۔

دھرنے کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہماری رائے ہے کہ مسلسل بیٹھا جائے لیکن چند جماعتیں جلسے کی بات کر رہی ہیں، تمام سیاسی جماعتیں اپنی بساط کے مطابق ساتھ دینے کی بات کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنے کارکنوں کو متحرک رکھیں گے لیکن ان کو بیٹھا کر تھکائیں گے نہیں بلکہ کہیں اور جائیں گے اور حکمرانوں کو تھکادیں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اگر حکمرانوں نےگرفتاریاں کیں تو مزید جذبہ پیدا ہوگا اور گرفتاریوں سے تحریکیں کبھی ختم نہیں ہوتیں بلکہ اس سے جوش اور جذبے میں اضافہ ہوتا ہے اس لیے حکمرانوں کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ شہد کی مکھی کے چھتے کو ہاتھ نہ لگائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آزادی مارچ کے سیلاب کو کوئی نہیں روک سکے گا اور روکنے کی کوشش بھی نہیں کرنا چاہیے بلکہ سر تسلیم خم کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کا دوبارہ اور فوری انتخاب پر اتفاق ہے، اس پر کوئی دو رائے نہیں ہے اور ان ہاؤس تبدیلی ہمارا درد سر نہیں ہے اگر کسی کے پاس ایسی کوئی تجویز ہے تو وہ سامنے لائے، سب لوگ بیٹھیں گے غور کریں گے اور واقعی اس میں وزن ہوا تو اس پر غور کیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں:آزادی مارچ کو کامیاب بنایا جائے، نواز شریف کا شہباز شریف کو خط

ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی بات کرچکے ہیں اور ہمارا ایک ہی آپشن ہے، دوسرا آپشن چھوڑا ہی نہیں ہے لہٰذا اس طرح کے سوالات ان سے پوچھیں جن کے ذہن میں ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے مذاکرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں وزیراعظم کے کسی پیغام کا انتظار ہے اور نہ کوئی پیغام ملا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ سیاست میں بات چیت کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں لیکن بات وہاں پہنچ جاتی ہے تو امکانات ختم ہوتے ہیں تاہم اگر وہ استعفی دینے کے اصول پر آتے ہیں تو پھر آگے کیا کرنا ہے اس پر بات ہوسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘استعفیٰ اور اس مطالبے کو تسلیم کیے بغیر وہ یہ سمجھے کہ ہم مذاکرات کریں گے تو قطعاً کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے’۔

یہ بھی پڑھیں:ہم آگے بڑھیں گے، پیچھے مڑنے کا کوئی آپشن نہیں، مولانا فضل الرحمٰن

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ‘حکومتی ادارے زیادہ دباؤ میں ہیں، پابندیاں اور قدغنیں خوف ور بوکھلاہٹ کی علامت ہیں، مخالف فریق کی پریس کانفرنس کو قوم کے سامنے رکھا جاتا ہے لیکن میرا ورژن کدھر جائے گا، پیمرا کے یہ فیصلے آمریت اور آمرانہ دور ہی کی علامت ہیں’۔

مولانا فضل الرحمٰن نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ صحافت کی آزادی کے لیے آپ کو اٹھنا ہو گا اور آزادی مارچ کا حصہ بننا پڑے گا، آپ کو قربانیاں دینا ہوں گی اور جب تک آپ خود احتجاج نہیں کریں گے اس وقت تک صحافت کی آزادی ایک خواب ہی رہے گا اور تعبیر نہیں ملے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں