بقا کی جنگ لڑنے والی جنگلی حیات کا ریکارڈ مرتب کرنے کا آغاز

اپ ڈیٹ 23 اکتوبر 2019
شمالی علاقہ جات میں مارخور سمیت دیگر کئی جانور نایاب ہوچکے ہیں—تصویر ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ
شمالی علاقہ جات میں مارخور سمیت دیگر کئی جانور نایاب ہوچکے ہیں—تصویر ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ

وزارت موسمیاتی تبدیلی نے ملک میں بقا کی جنگ لڑنے والی جنگلی حیات نوع کی تفصیلات جمع کرانے کے لیے ’پاکستان ریڈ ڈیٹا لسٹ‘ منصوبے کا آغاز کردیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق مذکورہ وزارت کے سیکریٹری حسن نثار جامی نے بتایا کہ جنگلی حیات اور ان کی نسل سے متعلق ضروری تفصیلات کی عدم موجودگی کے باعث ان کے تحفظ میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

مزیدپڑھیں: 10 لاکھ حیاتیاتی نوع، انسانوں کی وجہ سے معدومیت کے خطرے سے دوچار

انہوں نے بتایا کہ وائلڈ لائف کے عالمی اداروں کے ساتھ مل کر پہلی مرتبہ ملک میں معدوم ہوتی جنگلی حیات نوع کی تفصیلات جمع کی جارہی ہیں۔

حکام کے مطابق پاکستان ریڈ ڈیٹا لسٹ میں وائلڈ لائف پودے، جانور اور دیگر حیاتیات سے متعلق تفصیلات شامل ہوں گی اور سائنٹیفک اسٹڈی کے نتیجے میں مذکورہ ڈیٹا دنیا بھر میں قابل قبول ہوگا اور اس کے تناظر میں جنگلی حیات کے تحفظ، افزائش سمیت دیگر اہم اقدامات اٹھاسکیں گے۔

قائم مقام انسپکٹر جنرل فارسٹ اور پاکستان ریڈ لسٹ کے ٹیم لیڈر محمد سلیمان خان وڑائچ نے بتایا کہ تفصیلات جمع کرنے کے لیے 50 وائلڈ لائف سائنسدان، محققین، یونیورسٹی طلبا و طالبات، ڈبلیو ڈبلیو ایف، زولوجیکل سروے آف پاکستان اور وائلڈ لائف کنزرویشن سوسائٹی کو شامل کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نیشنل پارکس پاکستان کا خوبصورت چہرہ

انہوں نے بتایا کہ ماہرین پر مشتمل ٹیمیں ملک بھر کے مختلف حصوں سے نایاب جنگلی جانوروں، پودوں اور دیگر حیاتیات کی معلومات جمع کریں گی۔

محمد سلیمان خان وڑائچ کا کہنا تھاکہ ٹیموں کو فیلڈ میں بھیجنے سے قبل ان کی استعداد کار بڑھانے سے متعلق تربیت دی گئی، اب وہ سروے کے جدید طریقوں سے واقف ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان ریڈ ڈیٹا لسٹ‘ جنگلی حیاتیات سے متعلق ان کی آبادی، رہائش اور ماحول، استعمال یا تجارت اور خطرات کے بارے میں آگاہی دے گی۔

سلیمان خان وڑائچ نے بتایا کہ ریڈ ڈیٹا لسٹ جانوروں سمیت حیاتیاتی نوع کے تحفظ کے ضروری فیصلوں سے آگاہ کرنے میں مدد فراہم کرے گی۔

مزیدپڑھیں: ٹرافی ہنٹنگ: نایاب جانوروں کا ایسا شکار جو نقصاندہ نہیں

انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے جانوروں کے شکار کی اجازت سروے مکمل ہونے تک نہیں دی جائے گی کیونکہ اس بارے میں واضح شواہد موجود ہیں کہ مارخور سمیت دیگر کئی جانور نایاب ہوچکے ہیں۔

واضح رہے صوبوں کی جانب سے حکومت پر دباؤ ہے کہ مارخور کے شکار کے کوٹے کو 12 سے بڑھا کر 20 سے زائد کردیا جائے۔

اس سے قبل رواں برس اپریل میں محکمہ جنگلی حیات خیبر پختونخوا کی جانب سے جاری کردہ سروے رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں جنگلی حیات کی سب سے زیادہ اقسام خیبر پختونخوا میں پائی جاتی ہیں، تاہم یہاں ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب انواع و اقسام کے پرندے، جانوروں اور مختلف ادویات میں استعمال ہونے والے پودے انتہائی خطرناک صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پشاور کے کورڈینیٹر ڈاکٹر کامران حسین کے مطابق صوبے میں وائلڈ لائف کی اتنی اقسام ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہاں کے جغرافیائی خدوخال ہیں۔

مزیدپڑھیں: جدید سائنس انسانی بقا کیلئے ممکنہ خطرہ، سٹیفن ہاکنگز

انہوں نے کہا تھا کہ اونچے اونچے پہاڑ اور ان پر موجود گلیشئرز، گرم مرطوب علاقوں کی موجودگی، بنجر، بارانی نشیبی اور زرخیز زمینوں کی فراوانی جنگلی حیات کو ہر قسم کے مسکن (Habitats) دینے کی ضامن ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تاہم صوبے کی آب و ہوا میں تبدیلی، درجہ حرارت اور آبادی میں اضافے اور قدرتی وسائل کے غیر دانشمندانہ استعمال کی بدولت یہ بتدریج اپنی افزائش نسل اور مسکن سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں