سانحہ ساہیوال کیس: کب کیا ہوا؟

اپ ڈیٹ 24 اکتوبر 2019
رواں سال 19 جنوری کو سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے — فائل فوٹو: ڈان نیوز
رواں سال 19 جنوری کو سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے — فائل فوٹو: ڈان نیوز

لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے آج (بروز جمعرات) سانحہ ساہیوال مقدمے میں نامزد تمام 6 ملزمان کو شک کا فائدہ دے کر بری کردیا۔

خیال رہے کہ رواں سال 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر (کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ) سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔

سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر پولیس نے واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے تھے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان میں دیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔

واقعے میں محفوظ بچے کا بیان

واقعے میں محفوظ رہنے والے بچے کا کہنا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست موجود تھے۔

مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال میں پوسٹ مارٹم کرنے والا میڈیکل بورڈ عدالت طلب

بچے نے بتایا تھا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔

بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

وزیراعظم عمران خان کا وعدہ

واقعے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ’اس واقعے میں جو بھی ذمہ دار پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘۔

تاہم واقعے میں ہلاک افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔

’فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کا تعلق داعش سے تھا‘

واقعے کے اگلے روز ہی وزیر قانون پنجاب راجا بشارت نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے ذیشان کے دہشت گردوں سے روابط تھے اور وہ دہشت گرد تنظیم داعش کا حصہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال کے ملزمان پر فردِ جرم پھر عائد نہ ہوسکی

وزیر قانون پنجاب کا کہنا تھا کہ گاڑی کو چلانے والے ذیشان کا تعلق داعش سے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کے مؤقف کے مطابق ساہیوال میں آپریشن 100 فیصد انٹیلی جنس، ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔

راجا بشارت نے کہا تھا کہ ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کے قتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا۔

انہوں نے مزید بتایا تھا کہ ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کے قتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث ہے۔

داعش سے تعلق کے الزام پر لواحقین کا احتجاج

وزیر قانون کے بیان پر ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا تھا اور ذیشان کی لاش کی تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ذیشان کے بھائی احتشام کا کہنا تھا کہ جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے میت یہیں پڑی رہے گی کیونکہ ان کا بھائی دہشت گرد نہیں تھا۔

جس کے بعد پولیس کی جانب سے ذیشان کے لواحقین سے مذاکرات کیے گئے اور احتجاج ختم کردیا گیا تھا۔

جے آئی ٹی رپورٹ

واقعے کی تحقیقات کے لیے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) پولیس سید اعجاز حسین شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی۔

جے آئی ٹی کے دیگر 2 اراکین میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے نمائندے شامل تھے۔

جے آئی ٹی کو 72 گھنٹوں میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، جے آئی ٹی نے 22 جنوری کو 72 گھنٹے مکمل ہونے پر ابتدائی رپورٹ پیش کی تھی، جس پر بریفنگ دیتے ہوئے وزیر قانون پنجاب راجا بشارت نے کہا تھا کہ ساہیوال میں سی ٹی ڈی کا آپریشن 100 فیصد درست تھا۔

مزیدپڑھیں: ملزمان پر فرد جرم عائد نہ ہوسکی، سانحہ ساہیوال کے متاثرین کا احتجاج کا اعلان

ان کا کہنا تھا کہ 'جے آئی ٹی کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق خلیل کا خاندان بے گناہ ہے اور ان کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی کو ٹھہرایا گیا ہے، جے آئی ٹی کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے تمام افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا ہے جبکہ ذیشان جاوید کے بارے میں مزید تفتیش کی مہلت مانگی گئی ہے'۔

راجا بشارت کا کہنا تھا کہ 'ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے 5 اہلکاروں کے خلاف دفعہ 302 کے تحت چالان کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ان پر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا، ایڈیشنل آئی جی آپریشن پنجاب اور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے جبکہ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اور ایس پی سی ٹی ڈی کو معطل کردیا گیا ہے'۔

جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ سامنے آنے کے بعد واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے 5 اہلکاروں کے خلاف دفعہ 302 کے تحت چالان اور انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، ایڈیشنل آئی جی آپریشن پنجاب اور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا جبکہ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اور ایس پی سی ٹی ڈی کو معطل کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں