سانحہ ساہیوال: پنجاب حکومت نے ملزمان کی بریت چیلنج کردی

اپ ڈیٹ 29 اکتوبر 2019
اے ٹی سی کی خصوصی عدالت نے ساہیوال واقعے کے ملزمان کو بری کردیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز
اے ٹی سی کی خصوصی عدالت نے ساہیوال واقعے کے ملزمان کو بری کردیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر پنجاب حکومت نے سانحہ ساہیوال مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کی جانب سے ملزمان کی بریت کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔

صوبائی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل پراسیکوٹر عبدالصمد خان نے ملزمان کی بریت کے خلاف عدالت عالیہ میں اپیل دائر کردی۔

عدالت عالیہ میں دائر کی گئی اس اپیل میں سانحہ ساہیوال مقدمے میں ملزمان کی بریت پر اعتراض اٹھایا گیا ہے۔

پنجاب حکومت نے درخواست میں موقف اپنایا کہ مقدمے کی تفتیش درست نہیں ہوئی یا گواہوں نے اپنے بیان تبدیل کیے ہیں، لہٰذا قانون کے تحت گواہوں کے بیان تبدیل کرنے اور ناقص تفتیش پر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کی سانحہ ساہیوال میں عدالتی فیصلے پر اپیل دائر کرنے کی ہدایت

درخواست میں استدعا کی گئی کہ سانحہ ساہیوال کے ملزمان کی بریت کو کالعدم قرار دیا جائے۔

پنجاب حکومت کی اس درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کا دو رکنی بینچ سماعت کرے گا۔

وزیراعظم کی ہدایت

خیال رہے کہ 25 اکتوبر کو وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات نے بتایا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے سانحہ ساہیوال میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے فیصلے پر پنجاب حکومت کو اپیل دائر کرنے کی ہدایت کردی۔

انہوں نے بتایا تھا کہ وزیراعظم نے 'اس کیس کی پیروی میں استغاثہ کی کمزوری اور خامیوں کی تحقیقات کرنے کا بھی حکم دیا'۔

ساتھ ہی ایک اور ٹوئٹ میں فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا کہ 'بچوں کے سامنے ان کے والدین پر گولیاں برسانے کی ویڈیو پوری قوم نے دیکھی، حکومت معصوم بچوں کو انصاف دینے کے لیے پرعزم ہے، اگر ان کا خاندان مدعی نہیں بنتا تو ریاست اس مقدمے کی مدعیت کرے گی'۔

سانحہ ساہیوال مقدمے کا عدالتی فیصلہ

خیال رہے کہ 24 اکتوبر کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ ساہیوال مقدمے میں نامزد تمام 6 ملزمان کو شک کا فائدہ دے کر بری کردیا تھا۔

دوران سماعت سانحہ ساہیوال کے ملزمان صفدر حسین، احسن خان، رمضان، سیف اللہ، حسنین اور ناصر نواز عدالت میں پیش ہوئے تھے۔

واضح رہے کہ تمام ملزمان کا تعلق پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی سے تھا۔

اس سے قبل ملزمان کے وکلا نے سرکاری گواہوں کے بیانات پر جرح مکمل کی تھی جبکہ عدالت نے مقتول ذیشان کے بھائی احتشام سمیت مجموعی طور پر 49 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے تھے۔

خیال رہے کہ سانحہ ساہیوال میں قتل ہونے والے خلیل کے کم عمر بچوں عمیر، منیبہ اور ان کے بھائی جلیل سمیت دیگر نے بھی اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال: عدالت نے تمام ملزمان کو بری کردیا

عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ مدعی مقدمہ عبدالجلیل نے مقدمہ درج کرنے کی درخواست دائر کرنے سے انکار کیا تھا جبکہ سانحہ ساہیوال کے زخمی گواہوں نے بھی ملزمان کو شناخت نہیں کیا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ملزمان کی فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ میں بھی ملزموں کی شناخت نہیں ہوئی جبکہ جائے وقوع سے ملنے والی گولیوں کے خول بھی فرانزک کے لیے تاخیر سے بھیجے گئے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ پولیس کو اسلحہ فراہم کرنے والے انچارج نے سانحہ ساہیوال کا سارا اسلحہ واپس کرنے کا بیان دیا۔

عدالتی فیصلے کے بعد سانحہ ساہیوال کے مدعی اور مقتول خلیل کے بھائی محمد جلیل نے ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت کے فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں کیونکہ ہم اپنے اداروں پر اعتماد کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جو بھی عدالت نے فیصلہ کیا ہے اسے ہم نے دل سے تسلیم کرتے ہیں، اسے کوئی سیاسی رنگ نہ دیا جائے'۔

ساہیوال واقعہ

واضح رہے کہ رواں سال 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔

سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے تھے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان میں دیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔

واقعے میں محفوظ رہنے والے بچے کا کہنا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست تھے۔

مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال: ‘مقتولین کے ورثا کی جان کو خطرہ ہے‘

بچے نے بتایا تھا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔

بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

اس واقعے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ’اس واقعے میں جو بھی ذمہ دار پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘۔

تاہم واقعے میں ہلاک افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔

بعد ازاں وزیر قانون پنجاب راجا بشارت نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کے دہشت گردوں سے روابط تھے اور وہ دہشت گرد تنظیم داعش کا حصہ تھا۔

وزیر قانون پنجاب کا کہنا تھا کہ گاڑی کو چلانے والے ذیشان کا تعلق داعش سے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کے موقف کے مطابق ساہیوال میں آپریشن 100 فیصد انٹیلی جنس، ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔

راجا بشارت نے کہا تھا کہ ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کےقتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا۔

تاہم وزیر قانون کے اس بیان پر ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا تھا اور تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ذیشان کے بھائی احتشام کا کہنا تھا کہ جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے میت یہیں پڑی رہے گی کیونکہ ان کا بھائی دہشت گرد نہیں تھا۔

جس کے بعد پولیس کی جانب سے ذیشان کے لواحقین سے مذاکرات کیے گئے، جس کے بعد احتجاج ختم ہوگیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ساہیوال واقعہ: سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج

یاد رہے کہ سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کو 72 گھنٹوں میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، جے آئی ٹی نے 22 جنوری کو 72 گھنٹے مکمل ہونے پر ابتدائی رپورٹ پیش کی تھی، جس پر بریفنگ دیتے ہوئے وزیر قانون پنجاب راجا بشارت نے کہا تھا کہ ساہیوال میں سی ٹی ڈی کا آپریشن 100 فیصد درست تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جے آئی ٹی کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق خلیل کا خاندان بے گناہ ہے اور ان کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی کو ٹھہرایا گیا ہے، جے آئی ٹی کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے تمام افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا ہے جبکہ ذیشان جاوید کے بارے میں مزید تفتیش کی مہلت مانگی گئی ہے۔'

راجا بشارت کا کہنا تھا کہ 'ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے 5 اہلکاروں کے خلاف دفعہ 302 کے تحت چالان کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ان پر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا، ایڈیشنل آئی جی آپریشن پنجاب اور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے جبکہ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اور ایس پی سی ٹی ڈی کو معطل کردیا گیا'۔

تبصرے (0) بند ہیں