پاکستان سمیت 54 ممالک نے ’ایغوروں کے معاملے‘ پر چین کی حمایت کردی

اپ ڈیٹ 31 اکتوبر 2019
مصر، کانگو اور سربیا سمیت بولیویا نے بھی چین کی حمایت کی —فائل فوٹو: دی گارجین
مصر، کانگو اور سربیا سمیت بولیویا نے بھی چین کی حمایت کی —فائل فوٹو: دی گارجین

اقوام امتحدہ میں پاکستان اور مصر سمیت 54 ممالک نے چین کے صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے خلاف حراستی کیمپ کو بیجنگ کی ’انسانی حقوق کے شعبہ میں گراں قدر کامیابی‘ قرار دے دیا۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ میں ایغور مسلمان اور دیگر مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی انسانی حقوق سے متعلق تشویشناک خبروں کے بعد معاملہ زیر بحث آیا۔

مزیدپڑھیں: چین کی حراستی کیمپ سے 2 ہزار قازق اقلیتی شہریوں کو رہا کرنے پر آمادگی

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق چین میں حراستی کیمپ سے متعلق اقوام متحدہ میں برطانیہ نے بیجنگ میں انسانی حقوق کی پامالی کا معاملہ اٹھایا تو تقریباً تمام 23 مغربی ممالک نے لندن کی حمایت کی۔

جس کے بعد چین کے اتحادیوں بشمول پاکستان، روس اور مصر نے برطانوی موقف کی مخالفت کی اور کہا کہ’چین نے انسانی حقوق کے شعبہ میں غیرمعمولی کامیابی‘ حاصل کی ہیں۔

واضح رہے کانگو اور سربیا سمیت بولیویا نے بھی چین کی حمایت کی۔

خیال رہے کہ سنکیانگ کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے، جس میں سے زیادہ تر مسلمان اقلیت ایغور سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: چین: سنکیانگ کے مسلمانوں کیلئے درجنوں ناموں پر پابندی

علاوہ ازیں 23 ممالک نے چین کے صوبے سنکیانگ میں ایغوروں کے ساتھ ’غیرانسانی سلوک‘ پر تشویش کا اظہار کیا, تاہم اقوام متحدہ میں تمام 54 ممالک نے بیلا روس کی جانب سے پیش کیے گئے متن کی حمایت کی۔

یاد رہے کہ برطانیہ نے اقوام متحدہ میں چین کے اندر بڑے پیمانے پر حراستی کیمپ سے متعلق خدشات کا اظہار کیا تھا۔

برطانیہ نے کہا تھا کہ ’حراستی کیمپ سے متعلق معتبر اطلاعات ہیں جس میں ثقافتی اور مذہبی رسومات کو محدود کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں، ایغور مسلمانوں کی غیر متناسب طورپر نگرانی کی جاتی ہے اور انسانی اور دیگر بنیادی حقوق کی خلاف وزرزیاں جاری ہیں‘۔

واضح رہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق چین کے صوبے سنکیانگ میں 10 لاکھ سے زائد ایغور مسلمانوں کو حراست کیمپ میں موجود ہیں۔

مزیدپڑھیں: چین: مسلم بچوں کو مذہب سے دور رکھنے کی کوشش

ابتدائی طور پر چین 'حراستی کیمپ' سے متعلق انکار کرتا رہا لیکن پھر موقف اختیار کیا کہ انسداد مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے لیے ضروری تھا کہ وکیشنل ایجوکیشن سینٹر قائم کیے جائیں۔

چین ان مبینہ حراستی کیمپس کو وکیشنل ٹریننگ کیمپس قرار دیتا ہے۔

اقوام متحدہ میں امریکا، جرمنی، فرانس، کینیڈا، جاپان اور نیوزی لینڈ نے برطانوی موقف کی حمایت کی اور چین کی حکومت پر زور دیا کہ وہ ایغور اور دیگر مذہبی برادری کے افراد کو حراستی کیمپ سے آزاد کرے۔

اس کے برعکس، بیلاروس کے بیان میں بیجنگ میں انسانی حقوق کے ریکارڈ کی تعریف کی گئی جسے 50 سے زیادہ ممالک کی حمایت حاصل رہی۔

مزیدپڑھیں: چین: سنکیانگ کے مسلمانوں کیلئے درجنوں ناموں پر پابندی

بیان میں کہا گیا کہ ’ہم چین میں نظریے کی پاسداری اورانسانی حقوق کے تحفظ پر نمایاں کامیابیوں کو سراہتے ہیں‘۔

اس میں مزید کہا گیا کہ ’ہم چین کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کاز میں تعاون کو بھی سراہتے ہیں‘۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ چین نے سنکیانگ میں اسلام کی تعلیمات اور ایغور زبان پر سخت پابندیاں عائد کردی ہیں، جس سے متعلق اس کا مؤقف ہے کہ اس سے سنکیانگ میں رہائش پذیر غریب افراد کو معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم اکثریتی صوبے میں 'جدید تہذیب' کی ضرورت، چینی فوج

چین کے صوبے سنکیانگ کے حراستی کیمپ میں قید لوگوں کے ہزاروں لواحقین نے اپنے پیاروں کی آزادی کے لیے خطوط لکھنا اور میڈیا کانفرنس میں شرکت کرنا شروع کردیا ہے تاکہ عالمی توجہ کے نتیجے میں مثبت پیش رفت ہو سکے۔

تبصرے (1) بند ہیں

نثار Oct 31, 2019 09:51am
پاکستان ایک بار پھر تاریخ کے غلط ورق پر۔