کویت کے ہر نویں گھر میں گھریلو ملازمہ یا ملازم موجود ہے، رپورٹ—فوٹو: بی بی سی نیوز
کویت کے ہر نویں گھر میں گھریلو ملازمہ یا ملازم موجود ہے، رپورٹ—فوٹو: بی بی سی نیوز

کویتی حکام نے کم عمر گھریلو خواتین ملازمین کو چند ہزار ڈالر کے عوض آن لائن فروخت کیے جانے کی خبریں سامنے آنے کے بعد تفتیش کا حکم دے دیا۔

کویت اور سعودی عرب می خواتین گھریلو ملازمین کو چند ہزار ڈالر کے عوض فروخت کیے جانے کا انکشاف دو روز قبل ہی سامنے آیا تھا۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق ’بی بی سی عربیہ‘ کی جانب سے گلف ممالک میں کی جانے والی ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ نہ صرف ’کویت‘ بلکہ ’سعودی عرب‘ میں بھی خواتین ملازمین کی آن لائن فروخت کا کاروبار جاری ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کویت میں خواتین ملازمین کی آن لائن فروخت کا کاروبار بڑے پیمانے پر جاری ہے اور معروف ایپلی کیشن ’انسٹاگرام‘ سمیت فیس بک اور گوگل کی جانب سے تیار کی گئی دیگر ایپلی کیشنز پر بھی اس طرح کا کاروبار جاری ہے۔

رپورٹ کے مطابق گوگل اور ایپل اسٹور میں ایسی متعدد ای کامرس ایپلی کیشن موجود ہیں جنہیں کویتی افراد استعمال کرکے خواتین ملازمین کی فروخت کر رہے ہیں۔

آن لائن فروخت کے دوران خواتین کی تصاویر دینے سمیت ان کی عمر اور خصوصیات کا ذکر بھی کیا جاتا تھا—فوٹو: بی بی سی
آن لائن فروخت کے دوران خواتین کی تصاویر دینے سمیت ان کی عمر اور خصوصیات کا ذکر بھی کیا جاتا تھا—فوٹو: بی بی سی

خواتین ملازمین کی آن لائن فروخت میں نہ صرف مرد بلکہ کویتی خواتین بھی ملوث ہیں اور دنیا کے متعدد ممالک سے آنے والی خواتین ملازمین کو محض 2 ہزار امریکی ڈالر یعنی پاکستانی 3 لاکھ روپے سے کچھ زائد رقم میں فروخت کیا جا رہا تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ نشریاتی ادارے نے خواتین ملازمین کی آن لائن فروخت کرنے والے چند افراد سے بھی ملاقاتیں کیں، جنہوں نے آن لائن خرید و فروخت کا اعتراف کیا اور اسے منافع بخش کاروبار بھی کہا۔

رپورٹ کے مطابق افریقی و جنوبی ایشیائی ممالک سے گھریلو کام کے لیے آنے والی خواتین ملازمین سے مالکان پاسپورٹ اور موبائل فون چھین کر انہیں کچھ ہفتوں تک اپنے پاس رکھ کر آن لائن فروخت کر دیتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ خواتین ملازمین کی فروخت کے لیے دئے گئے اشتہار میں ان کے ملک کے نام سمیت ان کی خاصیت بھی بیان کی جاتی تھی۔

رپورٹ کے مطابق زیادہ تر افریقی ممالک جب کہ جنوبی ایشیا سے بھارت اور نیپال سے ملازمت کے لیے بلائی گئی خواتین کو بھی آن لائن فروخت کیا گیا۔

انسٹاگرام پر بھی خواتین کی آن لائن فروخت کی جاتی رہی—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
انسٹاگرام پر بھی خواتین کی آن لائن فروخت کی جاتی رہی—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ خواتین ملازمین کو خریدنے والے بعض افراد انہیں جنسی طور پر استعمال کرنے سمیت انہیں کاروباری چیز کی طرح کچھ دن اپنے پاس رکھ کر منافع پر فروخت کر دیتے ہیں۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ خواتین ملازمین کی فروخت کا سلسلہ نہ صرف ’کویت‘ بلکہ ’سعودی عرب‘ میں بھی جاری ہے۔

تاہم اب خبر سامنے آئی ہے کہ خواتین ملازمین کی آن لائن خرید و فروخت کا معاملہ سامنے آنے کے بعد کویتی حکام نے معاملے کی تفتیش کا حکم دے دیا۔

بی بی سی نے اپنی نئی رپورٹ میں بتایا کہ کویتی حکام نے تفتیش کا آغاز کرتے ہوئے آن لائن خرید و فروخت کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔

کویتی حکام نے دعویٰ کیا کہ مکروہ کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور ایسے کام کرنے والی ایپلی کیشنز کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔

دوسری جانب فیس بک اور گوگل نے بھی کویت میں اپنی زیر ملکیت رہنے والی ایپلی کیشنز پر خواتین ملازمین کی آن لائن خرید و فروخت کا اعتراف کرتے ہوئے ان تمام اکاؤنٹس کو بند کردیا جن کے ذریعے یہ مکروہ کام کیا جا رہا تھا۔

گلف ممالک میں گھریلو ملازمین کے ساتھ ظلم پر وہاں اقوام متحدہ سمیت دیگر تنظیمیں کانفرنسز کرتی رہی ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
گلف ممالک میں گھریلو ملازمین کے ساتھ ظلم پر وہاں اقوام متحدہ سمیت دیگر تنظیمیں کانفرنسز کرتی رہی ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

تبصرے (0) بند ہیں