'کابینہ کی منظوری کے بغیر جسٹس عیسیٰ کے خلاف بھیجا گیا ریفرنس کالعدم قرار دیا جائے'

اپ ڈیٹ 06 نومبر 2019
سپریم کورٹ کے جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر ہے — فائل فوٹو: اسکرین شاٹ
سپریم کورٹ کے جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر ہے — فائل فوٹو: اسکرین شاٹ

سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواست میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے ہیں کہ یہ صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کیس نہیں بلکہ اس سے مستقبل کے اصول بھی طے ہوں گے۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر کی جانب سے صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دینے کا سلسلہ جاری رکھا اور بتایا کہ صدر مملکت کو کابینہ کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے وہ اس مشورے پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔

منیر اے ملک نے کہا کہ وفاقی حکومت کے رولز کے تحت صدر مملکت وزیراعظم کے مشورے پر چلتے ہیں، صدر مملکت کا وزیراعظم کے مشورے پر چلنا قانون کی خلاف ورزی ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: وزیراعظم نے آئین کی خلاف ورزی کی، وکیل جسٹس عیسیٰ

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جج کے خلاف ریفرنس بھیجنا، جج کو عہدے سے ہٹانا فیڈریشن کا انتظامی اختیار ہے، اس پر جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ عدالتی فیصلے میں وزیراعظم یا کابینہ کا ذکر ہے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ بعض اہم فیصلے کرنا کابینہ کا نہیں وزیراعظم کا اختیار ہے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ آرمی چیف کا تقرر بھی وزیراعظم کا آئینی اختیار ہے، ساتھ ہی وکیل نے یہ بھی بتایا کہ 18 ویں ترمیم سے قبل صدر مملک وفاقی وزرا کی جانب سے دیے گئے مشورے کو زیر غور لاکر کابینہ کو بھیج سکتے تھے، یہی نہیں بلکہ اس ترمیم سے قبل صدر مملکت، وزیراعظم کے مشورے کو بھی کابینہ کو بھیج سکتے تھے۔

دوران سماعت منیر اے ملک نے کہا کہ 18ویں ترمیم سے قبل صدر کابینہ کے مشورے کے پابند تھے، تاہم 18ویں ترمیم کے بعد صدر مملکت وزیراعظم اور کابینہ کے مشورے پر 10 روز میں عمل کرنے کے پابند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسمبلی کو تحلیل کرنے کے لیے صرف وزیراعظم کا مشورہ کافی ہے، صدر مملکت، وزیراعظم کے مشورے پر ہی وفاقی وزرا کا تقرر کرتے ہیں۔

وکیل کی بات پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آئین ایک جگہ کہتا ہے کہ صدر مملکت اپنے صوابدیدی اختیار کا استعمال کریں گے، دوسری جگہ آئین صدر مملک کو وزیراعظم کے مشورے کا پابند کرتا ہے، اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ وفاقی حکومت کے رولز آئین سے بالاتر نہیں، ماضی میں پارلیمنٹ کو یرغمال بنانے کے لیے ترامیم ہوئیں۔

اس دوران انہوں نے مصطفیٰ ایمپکس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کے بعد صدارتی آرڈیننس کابینہ کی منظوری کے بغیر نہیں لایا جاسکتا، جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے مصطفیٰ ایمپکس فیصلے سے قبل وفاقی حکومت کے قواعد کی روشنی میں ایڈوائس بھیجی جاتی تھی۔

عدالتی ریمارکس پر منیر اے ملک نے کہا کہ مصطفیٰ ایمپکس کیس میں 18ویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے معاملات کی تشریح کی گئی ہے۔

وکیل کی بات پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ صدر مملکت کسی مشورے پر عمل کرتے ہیں، جب صدر مملکت نے کسی ایڈوائس پر چلنا ہے وہ اپنی رائے کیسے قائم کرے گا، آرٹیکل 209 کے تحت صدر مملکت، وفاقی حکومت کے معاملات کو تقویت نہیں دے سکتا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ کیا آئین میں کوئی ایسا آرٹیکل ہے، جہاں صدر مملکت نے اپنی رائے بنائی ہوتی ہے، اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ آرٹیکل، 209 کے علاوہ کسی جگہ آئین میں صدر مملکت کو اپنی رائے دینے کا اختیار نہیں دیا گیا۔

وکیل کی بات پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ مصطفیٰ ایمپکس کیس کے مطابق وفاقی حکومت سے مراد کابینہ ہے، عدالتی فیصلے میں صرف کابینہ کو بائی پاس کرنے کا اختیار ختم کیا گیا ہے۔

اس پر منیر اے ملک نے جواب دیا کہ آئین بتاتا ہے کہ کہاں وزیراعظم اور کہاں کابینہ کی منظوری لازمی ہے، میرا موقف ہے کہ کابینہ کی منظوری کے بغیر ریفرنس بھیجنے پر اس کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: 'جج کےخلاف ریفرنس بھجوانے میں صدرکا وزیراعظم کے مشورے پر عمل کرنا غیرآئینی ہے'

جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آپ سپریم کورٹ کے ججز کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی بات کر رہے ہیں، دلائل میں مدنظر رکھیں کہ عدلیہ پر چیک بھی ہونا چاہیے، یہ صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کیس نہیں بلکہ اس سے مستقبل کے اصول بھی طے ہوں گے۔

عدالتی ریمارکس پر منیر اے ملک نے کہا کہ عدلیہ کا وقار احتساب پر منحصر ہے، ٹیکس کے معاملے پر مزید دلائل ساتھی وکیل بابر ستار کے دلائل کے بعد دوں گا۔

جس پر جسٹس عمر عطا بنیال نے ریمارکس دیے کہ کیس کی آئندہ تاریخ آفس کے ذریعے بتادی جائے گی، بینچ کی دستیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے سماعت کی تاریخ مقرر کی جاے گی۔

بعدازاں عدالت نے مذکورہ کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست

خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرتے ہوئے اپنی درخواست فل کورٹ کی تشکیل کے لیے عدالتی مثالیں دیتے ہوئے کہا تھا کہ فل کورٹ بنانے کی عدالتی نظیر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بنام ریاست کیس میں موجود ہے۔

اپنے اعتراضات کی حمایت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ ان کے خلاف ریفرنس 427 (دوسری درخواست) پر سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے فیصلے میں 'تعصب' ظاہر کیا اور وہ منصفانہ سماعت کی اپنی ساخت کھوچکی ہے۔

اپنی درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وہ کوئی بھی ریفرنس کا سامنا کرنے کو تیار ہیں اگر وہ قانون کے مطابق ہو لیکن انہوں نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ان کی اہلیہ اور بچوں کو مبینہ طور پر اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا تھا کہ درخواست گزار کی اہلیہ اور بچوں پر غیرقانونی طریقے سے خفیہ آلات اور عوامی فنڈز کے غلط استعمال کرکے سروے کیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنسز

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا معاملہ رواں سال مئی میں شروع ہوا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

مزید پڑھیں: ’جسٹس فائز عیسیٰ کے اثاثوں کی تلاش کیلئے متعلقہ اتھارٹی سے اجازت نہیں لی‘

تاہم اس ریفرنس سے متعلق ذرائع ابلاغ میں خبروں کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت عارف علوی کو متعدد خطوط لکھے اور پوچھا کہ کیا یہ خبریں درست ہیں۔

بعدازاں لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل نے جج کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے اور ان سے جواب مانگنے پر ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ججز کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی۔

تاہم سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے اس ریفرنس کو خارج کردیا اور کہا کہ کئی وجوہات کی بنا پر کونسل کو صدر مملکت کو خطوط لکھنے کا معاملہ اتنا سنگین نہیں لگا کہ وہ مس کنڈکٹ کا باعث بنے اور اس کی بنیاد پر انہیں (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے ہٹایا جاسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں