جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ایک سال میں تین بجٹ پیش کرکے بھی محصولات کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام اس حکومت کو اب ایک دن کی بھی مہلت نہیں دے سکتے۔

اسلام آباد میں آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 'یہ اجتماع نظریے اور مؤقف کے ساتھ کھڑے رہنے والوں کا ہے، تکلیف دہ مراحل تھے جب رات کو بارش ہو رہی تھے، آپ لوگ کھلے آسمان تلے استقامت کا پہاڑ بنے ہوئے تھے، ہم آنے والے امتحانوں میں بھی کامیاب ہوں گے'۔

انہوں نے اعلان کیا کہ '12ربیع الاول کو ہم اس آزادی مارچ کو سیرت طیبہ کانفرنس میں تبدیل کردیں گے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نے اپنی نسبت آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کردی ہے، خوف اور تزلزل ان کے قریب سے بھی نہیں گزری اور انہوں نے کہا تھا کہ خوف اور ایمان دونوں اکٹھے نہیں رہ سکتے'۔

مزید پڑھیں: 'دھرنا سیاسی سرگرمی ہے اس میں فوج کا کوئی کردار نہیں'

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ اجتماع کسی پکنک یا عیاشی کا اجتماع نہیں ہے بلکہ یہ اپنے نظریے اور موقف کے ساتھ کھڑے رہنے والوں کا اجتماع ہے'۔

اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ 'پاکستان مالیاتی بحران سے گزر رہا ہے اور مستقبل میں ہم مزید مالیاتی بحران کی جانب جا رہے ہیں اور خدا نہ کرے اگلا بجٹ بھی ان کے حوالے ہوگیا تو پاکستان مکمل طور پر بیٹھ جائے گا'۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 'ایک سال میں تین بجٹ پیش کرکے بھی یہ محصولات کا ہدف نہیں حاصل کرسکے، اگلا بجٹ انہوں نے پیش کیا تو ہم دیوالیہ کے کنارے نہیں ہم دیوالیہ قرار دیے جائیں گے اور ہماری معیشت کا جہاز سمندر میں غرق ہوجائے گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان سویت یونین کے مقابلے کا نہیں، وہ دنیا کی بڑی طاقتوں میں سے ایک تھا تاہم وہ اقتصادی ناکامی کی وجہ سےٹوٹ گیا اور آج ہم بھی ایسی ہی صورت حال سے گزر رہے ہیں اور ہمیں اگر ملک کو بچانا ہے تو ان نا اہل حکمرانوں کو ہم ایک دن بھی مزید دینے کو تیار نہیں ہوسکتے اور جتنے دن بھی ان کو ملیں گے ہم اتنے مزید نیچے گرتے چلے جائیں گے'۔

جے یو آئی (ف) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ 'سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف موجودہ حکومت کی خواہش پر ریفرنس چل رہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اس حکومت کے مفاد کے خلاف فیصلے دیے تھے'۔

یہ بھی پڑھیں: آزادی مارچ: چوہدری برادران کی 36 گھنٹوں میں مولانا فضل الرحمٰن سے تیسری ملاقات

ان کا کہنا تھا کہ 'اس ملک میں عدل و انصاف قوم کا مسئلہ ہے اور قوم یہاں انصاف کی بالادستی چاہتی ہے یہاں یک طرفہ احتساب اور انصاف نہیں چلے گا اور حکومت کو اب یہ ریفرنس بھی واپس کرنا ہوگا'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں کہ کوئی جج عوام کے حق میں فیصلہ دیتا ہے اور حکمرانوں کے مفاد کے خلاف جاتا ہے تو اس کے خلاف ریفرنس دائر کردیا جاتا ہے'۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 'سپریم کورٹ بار کے وکلا نے مارچ میں شرکت کرکے اس مارچ کو تائید سے نوازا جس پر میں ان کا شکر گزار ہوں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وکلا کی شرکت نے ثابت کردیا کہ مارچ قانونی اور آئینی لحاظ سے بھی جائز ہے'۔

حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ '400 اداروں کو ختم کرنے کی بات کی گئی جن کے ساتھ ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور کہا جاتا ہے کہ عوام حکومت سے نوکری کی توقع نہ رکھے، ایک کروڑ نوکریاں دینے کا جھوٹا وعدہ کیوں کیا گیا تھا، جھوٹ کی بنیاد پر قائم کی گئی حکومت کو اس ملک کے نوجوان بھی تسلیم نہیں کر رہے ہیں'۔

جے یو آئی (ف) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ 'حکومت نے 50 لاکھ گھر بنانے کی بات کی تھی اور تجاوزات کے نام پر 50 لاکھ گھر تو گرا دیے مگر کسی ایک نئے گھر کی اینٹ بھی نہیں رکھی گئی'۔

تبصرے (0) بند ہیں