لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے بعد ڈاکٹرز کا ہڑتال ختم کرنے کا اعلان

اپ ڈیٹ 08 نومبر 2019
لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس جواد حسن نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: اے ایف پی
لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس جواد حسن نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور میں ینگ ڈاکٹرز نے ہائی کورٹ کے حکم کے بعد ہرتال ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

چیئرمین گرینڈ ہیلتھ الائنس ڈاکٹر سلمان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 'کل سے او پی ڈی، ان ڈور اور آؤٹ ڈور میں کام شروع ہوگا اور ڈاکٹرز، نرسز، پیرا میڈیکل اسٹاف کل صبح آٹھ بجے سے اپنی ڈیوٹیاں ہسپتالوں میں سرانجام دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آج ہائی کورٹ میں طلب کیا گیا اور جسٹس جواد خان نے بھی ہمارے مطالبات پورے کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جسٹس جواد نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے جسے گرینڈ الائنس کی کمیٹی بہترین ریفارمز پیش کرے گی، جج کے احکامات کا خیر مقدم کرتے ہیں اور عدالتی احکامات کے پیش نظر ہم نے ہڑتال موخر کر دی ہے۔

ینگ ڈاکٹرز کو ہڑتال ختم کرنے کا حکم

قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ نے حکومتی آرڈیننس کے خلاف احتجاج کرنے والے ینگ ڈاکٹرز کو ہڑتال ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔

صوبائی دارالحکومت کی عدالت میں جسٹس جواد حسن نے پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس 2019 کے نفاذ کے خلاف ینگ ڈاکٹرز کی جاری ہڑتال پر دائر کی گئی درخواست پر سماعت کی، اس موقع ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے نمائندے اور وکیل پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران ینگ ڈاکٹر کے وکیل نے موقف اپنایا کہ او پی ڈی میں ہڑتال نہیں ہے، جو آرڈیننس نافذ کیا گیا وہ نامکمل ہے، اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آئینی طور پر پروفیشنل ہڑتال کرسکتے ہیں؟

جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیے کہ عدالت اس بارے تفصیلی حکم جاری کرے گی، یہ سیکریٹری صحت کا قصور ہے کہ معاملہ ابھی تک لٹکا ہوا ہے، جب تک تمام اسٹیک ہولڈر نہیں بیٹھتے مسئلہ حل نہی ہوتا، ڈیوٹی اوقات میں ہڑتال کرنا جرم ہے۔

مزید پڑھیں: ڈاکٹروں کا احتجاج، پولیس کی کارروائی، متعدد افراد زخمی

عدالت نے ریمارکس دیے کہ وکلا بھی ہڑتال کرتے ہیں لیکن اہم کیسز میں عدالت میں پیش ہوتے ہیں، اس دوران ینگ ڈاکٹرز کو مشاورت کی ہدایت کرکے عدالت کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ابھی تو آرڈیننس آیا ہے قانون تو بنا ہی نہیں پھر ہڑتال کیوں کی گئی، اس پر ینگ ڈاکٹر کے وکیل نے کہا ہم اچھا تاثر دینے کےلیے ہڑتال ختم کررہے ہیں۔

ساتھ ہی وکیل نے کہا کہ ڈاکٹرز صرف اپنا موقف بیان کرنا چاہتا تھے، جذبات میں آنے کی معذرت کرتے ہیں، اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ پروفیشنلز نے معاشرے کو اپنی خدمات دینا ہوتی ہیں، عدالت اپنے فیصلے میں ہڑتال کے مستقبل کا بھی فیصلہ کرے گی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایڈیشنل چیف سیکریٹری کی کمیٹی میں تمام فریقین کا موقف سنا جائے، ہڑتال تو اکتوبر سے چل رہی ہے تو پھر کمیٹی کل کیوں بنائی گئی، فریقین کے تحفظات کو سننے کے لیے اتنی تاخیر سے کیوں کمیٹی بنائی گئی۔

ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ اس قانون سے متعلق جتنے بھی فریق ہیں ان کا موقف سننا لازمی ہے، اس پر سیکریٹری صحت نے بتایا کہ یہ لوگ اب قانون کو ہی ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ فی الحال تو ہڑتال ختم کرکے کام شروع کریں، جس پر وکیل نے صوبائی حکومت کے نمائندے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سیکریٹری صحت معاملے کو ڈرامے کے انداز میں بیان نہ کریں۔

وکیل نے کہا کہ ینگ ڈاکٹرز قوم کا مستقبل ہیں، ان کے مستقبل کو بھی تحفظ ملنا چاہیے، اس پر سیکریٹری صحت پنجاب مومن آغا نے کہا کہ یہ قانون آرڈیننس سے بالکل مختلف ہوگا۔

سماعت کے دوران جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیے کہ ایسی ہڑتال کرنے پر سپریم کورٹ کا بھی حکم موجود ہے، وہ کچھ قواعد و ضوابط کے پابند ہوتے ہیں۔

اس پر ڈاکٹرز کے وکیل نے بتایا کہ ایسے قانون کے مسودے سے بھی ڈاکٹرز کا شعبہ متاثر ہوتا ہے، جو کمیٹی بنائی گئی ہے اس میں ڈاکٹرز کے نمائندے بھی شامل نہیں ہیں، جس پر جسٹس جواد حسن نے کہا کہ ڈاکٹرز کے علی رضا، وکیل عابد ساقی، وائے ڈی اے کے صدر اور جنرل سیکریٹری کو بھی اس کمیٹی میں شامل کیا جائے، یہ کمیٹی اس پر مشاورتی ورکشاپ کرے گی۔

جسٹس جواد حسن نے کہا کہ اس کمیٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے لیکن ڈاکٹرز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی جبکہ ڈاکٹرز بھی ہڑتال نہیں کریں گے۔

اس پر سیکریٹری صحت نے بتایا کہ کچھ لوگوں کو پہلے ہی اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری ہیں، جس پر عدالت نے کہا وہ اس پر جواب دیں۔

بعد ازاں عدالت نے حکم دیا کہ ڈاکٹرز ہڑتال ختم کریں اور خوشی سے جاکر کام شروع کریں، جس پر وکیل نے عدالت میں کہا کہ ہم عدالتی حکم پرعمل کریں گے اور آج ہی ہڑتال ختم کریں گے، ہم عدالت کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ساتھ ہی عدالت نے آرڈیننس سے متعلق سیکریٹری صحت کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کا بھی حکم دے دیا اور مذکورہ کیس کی سماعت 2 دسمبر تک ملتوی کردی۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب، خیبرپختونخوا میں ینگ ڈاکٹرز کا احتجاج، مریضوں کو مشکلات کا سامنا

قبل ازیں گرینڈ ہیلتھ الائنس کے چیئرمین ڈاکٹر سلمان چوہدری نے ڈان نیوز کو بتایا تھا کہ ہم ہڑتال ختم نہیں کر رہے جب تک محکمہ صحت ہماری مکمل بات نہیں سنتا، اس ایکٹ کو ختم نہیں کرتا اور ہمارے مطالبات نہیں تسلیم کرتے ہم ہڑتال ختم نہیں کریں گے۔

خیال رہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس 2019 کے خلاف پنجاب کے ینگ ڈاکٹرز گزشتہ کئی روز سے ہڑتال پر ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت اس آرڈیننس کو ختم کرے۔

اس آرڈیننس پر ڈاکٹروں کا یہ موقف ہے کہ اس ایکٹ سے سرکاری ہسپتالوں کو پرائیویٹ ہسپتالوں کی طرح کیا جارہا ہے، جس سے ان کی ملازمتیں بھی پرائیویٹ ہوجائیں گی۔

اسی طرح ان کا یہ بھی موقف ہے کہ اس ایکٹ سے ابتدائی طور پر سرکاری ہسپتالوں میں ٹیسٹوں کی فیسز میں اضافہ کیا گیا اور اب اس کا مکمل نفاذ کرکے سرکاری ہسپتالوں کو نجی کر رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں