'میرے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکامی سے دوچار ہوگی'

اپ ڈیٹ 10 نومبر 2019
قاسم سوری نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ احتجاج جلد از جلد ختم ہو—فائل فوٹو: ڈان نیوز
قاسم سوری نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ احتجاج جلد از جلد ختم ہو—فائل فوٹو: ڈان نیوز

کوئٹہ: ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے کہا ہے کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا وہی حال ہوگا جس طرح سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف قرارداد کا ہوا تھا۔

کوئٹہ میں نجی اسکول کے پروگرام میں شرکت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے قاسم سوری نے کہا کہ اسلام آباد میں احتجاج شرکا کا آئینی حق ہے اور حکومت ان کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ دو روز قبل قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی تھی۔

مزید پڑھیں: چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تبدیلی کی تحاریک ناکام

تحریک عدم اعتماد کے اس نوٹس میں ڈپٹی اسپیکر کے خلاف آئین اور قواعد کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے گئے۔

اس ضمن میں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کا کہنا تھا کہ 'ہم چاہتے ہیں کہ احتجاج جلد از جلد ختم ہو'۔

قاسم سوری نے کہا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو شدید بیماری کی وجہ سے رعایت ملی لیکن اگر پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری رعایت چاہتے ہیں تو انہیں عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف کی صحت کے معاملے پر سیاست نہیں کی گئی۔

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ انہیں کچھ ہو اور نہ ہی اس معاملے پر سیاست کرنا چاہتے ہیں تاہم مسلم لیگ (ن) کے قائد کو میڈیکل کی بنیاد پر عدالت نے اجازت دی۔

قاسم سوری نے کہا کہ موجودہ اسمبلی میں ماضی کے مقابلے میں سب سے زیادہ پروڈکشن آرڈرز جاری ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد کی ناکامی: ’شک کی بنیاد پر کسی کو پارٹی سے نہیں نکال سکتے‘

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 15 ماہ سے قومی اسمبلی آئین اور قانون کے مطابق چل رہی ہے، سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی، ان کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے اور میرے خلاف لائی گئی قرارداد کا حشر بھی ویسا ہی ہوگا۔

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے قرارداد کے بارے میں بی این پی کے ووٹ پر کہا کہ اختر مینگل نے بی این پی کی قیادت کی اور ہمیشہ تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا اور آئندہ بھی ایسا ہی کریں گے۔

خیال رہے کہ رواں برس 9 جولائی کو پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور مسلم لیگ (ن) کے جاوید عباسی کی جانب سے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ایوان میں لائی گئی۔

اپوزیشن کی جانب سے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد کی حمایت میں 64 اراکین ایوان میں کھڑے ہوئے، تاہم خفیہ رائے شماری میں صرف 50 ووٹ نکلے۔

مزیدپڑھیں: ’آئین اور وفاق سے کھیلا گیا کھیل، جمہوریت کیلئے نیک شگون نہیں‘

ایوان میں مطلوبہ ہدف تک ووٹ حاصل نہ ہونے پر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کردیا گیا جس کے ساتھ ہی چیئرمین سینیٹ اپنے عہدے پر برقرار رہے۔

جبکہ اپوزیشن نے نیشنل پارٹی (این پی) کے سربراہ سینیٹر میر حاصل خان بزنجو کو نئے چیئرمین سینیٹ کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں