تحریک عدم اعتماد کی ناکامی: ’شک کی بنیاد پر کسی کو پارٹی سے نہیں نکال سکتے‘

اپ ڈیٹ 03 اگست 2019
اگر میری جماعت پر الزام لگا رہے ہیں تو وہ میرے خلاف بات کر رہے ہیں—اسکرین شاٹ
اگر میری جماعت پر الزام لگا رہے ہیں تو وہ میرے خلاف بات کر رہے ہیں—اسکرین شاٹ

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ان کے اراکین کو پیسوں کی پیش کش کی جارہی تھی لیکن وہ کسی کے کہنے یا شک کی بنیاد پر کسی کو پارٹی سے نہیں نکال سکتے۔

لاہور میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ میں مکمل اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میرے اکثر لوگ میرے ساتھ ہیں، بجٹ ووٹنگ ہو یا سینیٹ ووٹنگ ہو، پیپلزپارٹی کے 100 فیصد اراکین موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی متحدہ اپوزیشن کی مہم کو مکمل اعتماد کے ساتھ چلا رہی تاہم میڈیا کو ایک ہدایت دی گئی ہے کہ ان لوگوں کو آپس میں لڑوائیں۔

تحریک عدم اعتماد پر سینیٹرز کا ساتھ چھوڑنے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ کسی ایک جماعت کے نہیں ہوں گے بلکہ سارے جماعتوں سے سینیٹرز توڑے گئے ہوں گے۔

مزید پڑھیں: ’آئین اور وفاق سے کھیلا گیا کھیل، جمہوریت کیلئے نیک شگون نہیں‘

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ اگر میری جماعت پر الزام لگا رہے ہیں تو وہ میرے خلاف بات کر رہے ہیں اور میں اپنی سینیٹ قیادت، اراکین کی ذمہ داری لیتا ہوں۔

نیشنل پارٹی (این پی) کے سربراہ میر حاصل بزنجو کے قومی ادارے پر لگائے گئے الزام پر ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی ہے، جس کی ذمہ داری ان تمام الزامات اور پورے عمل کو دیکھنے کی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ مہم کے دوران میں نے کہا تھا کہ میری جماعت کے لوگوں کو پیسے کی پیش کش کی جارہی ہے، میں اس بارے میں تمام حقائق کو اکھٹا کررہا ہوں اور دیگر جماعتوں کو بھی ایسا کرنا چاہیے۔

چیئرمین پیپلزپارٹی کا مزید کہنا تھا کہ ہر جماعت کی اپنی سوچ ہوسکتی ہے لیکن میں کسی کے کہنے یا شک کی بنا پر کسی کو جماعت سے نہیں نکال سکتا، جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہوتیں کسی کے خلاف ایکشن نہیں لیا جاسکتا، تاہم یہ بہتر ہوا کہ ہم سینیٹ الیکشن ہارے کیونکہ اس سے وہ اصل چہرے سامنے آئے جو پی ٹی آئی یا دوسری جماعت میں شامل ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ میں ایسے لوگوں کو چاہتا ہوں جو واقعی میرے ساتھ ہوں، پیپلزپارٹی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ’کٹھ پتلی حکومت اور غیرجمہوری قوتوں‘ پر توجہ مرکوز کرے جنہوں نے یہ دھاندلی کی۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہماری توجہ ان جماعتوں کے سینیٹرز پر کم ہونی چاہیے جنہوں نے غداری کی بلکہ اس بات پر زیادہ توجہ ہونی چاہیے کہ کس طریقے سے غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے ایک سلیکشن کروایا گیا، ہماری توجہ اس پر ہونی چاہیے کہ 50 اپوزیشن سینیٹرز نے دباؤ، لالچ کے باوجود جمہوریت اور پارٹی سے وفاداری دکھائی تاہم 14 لوگوں کی وجہ سے سب پر شک ہورہا ہے۔

ایک سوال پر پیپلزپارٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخاب کوئی مقابلہ نہیں تھا بلکہ یہ انتخاب تو اسی دن ختم ہوگیا تھا جس دن حاصل بزنجو کو نامزد کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ کہتے تھے عام انتخابات صاف و شفاف تھے انہیں سینیٹ الیکشن میں خود نظر آیا کہ حکومت غیرجمہوری ہتھکنڈے استعمال کرکے حاوی ہوگئی، تاہم میرا مقصد ہے کہ ہر جگہ حکومت کو بے نقاب کروں۔

سینیٹ انتخاب پر بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اگر صرف طاقت، عہدے کی بات ہے تو یہ شکست تھی لیکن سیاسی سوچ رکھنے والوں کی یہ سیاسی جیت تھی کہ انہوں نے حکومت کو بے نقاب کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: پیپلزپارٹی کی اپنے سینیٹرز کے کردار کے تعین کیلئے کمیٹی قائم

ایک سوال کہ جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخاب میں خفیہ رائے شماری کے طریقے پر اصلاحات ہونی چاہیے، یہی نہیں بلکہ عام انتخابات میں بھی اپوزیشن جماعتوں کے لیے یہ زیادہ ضروری ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات پر زور دیں کیونکہ گزشتہ عام انتخابات میں ’سلیکشن‘ کروایا گیا، لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ صاف و شفاف انتخابات کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔

سندھ حکومت سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ 2007 سے کچھ لوگوں کو یہ خواب نظر آرہا ہے کہ سندھ حکومت جائے گی لیکن میں بس اتنا کہوں گا کہ سندھ حکومت آج بھی ہے اور خواب دیکھنے والے گئے۔

انہوں نے کہا کہ عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے خلاف ہتھکنڈے استعمال کیے گئے لیکن میرے کارکنوں اور امیدواروں نے ان سب کا مقابلہ کرتے ہوئے مجھے اس مرتبہ زیادہ ووٹ اور نشستیں دی ہیں۔

دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ میری سندھ حکومت ہٹا کر دکھائیں گے تو ہٹا کر دکھائیں میں 90 روز میں ضمنی انتخابات سے واپس آؤں گا اور میری اکثریت بڑھے گی اور سندھ اسمبلی میں میری 100 فیصد اکثریت ہوجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد سندھ حکومت توڑنے کے لیے ایک، 2 یا 14 ایم پی اے نہیں تڑوانے پڑیں گے بلکہ 50 فیصد سے زائد اراکین تو توڑنے پڑیں گے اور میرے پاس اس وقت 100 ایم پی ایز موجود ہیں تو جو یہ شوق رکھتے ہیں انہیں پیپلزپارٹی کی 51 سیٹیں حاصل کرنی پڑیں گی۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ گھوٹکی میں ابھی دکھایا کہ پوری حکومت اور ان کے اتحادی مل کر بھی مقابلہ کریں تو عبرت ناک شکست ہوگی، لہٰذا اس طرف آنکھ بھی نہ دکھائیں آپ کا وقت ضائع ہورہا ہے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کا امیدوار بنایا گیا تو اس وقت صورت حال کچھ اور تھی اور اب کچھ اور ہے، تاہم مجھے پتہ ہے کہ کس جماعت کے کس رکن نے صادق سنجرانی کو پہلی مرتبہ ووٹ دیا، لہٰذا جمہوریت اور متحدہ اپوزیشن کے مفاد میں ہم آپس میں نہ لڑیں بلکہ جن حکومتی لوگوں نے دھاندلی کی ان پر توجہ مرکوز کریں۔

مزید پڑھیں: چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تبدیلی کی تحاریک ناکام

آرٹیکل 6 سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے 1973 کا آئین اور 18 ویں ترمیم کو پاس کیا، ہمیں نہ بتائیں کہ اس کا کیا مطلب ہے، یہ آرٹیکل ان پر استعمال ہوسکتا ہے جو آئین توڑتے ہیں، یا پھر وہ لوگ جو فورس کو دھمکی دے کر آئین توڑنے کی دھمکی دیں یا پھر ان کے خلاف بھی استعمال ہوسکتا ہے جو غیرجمہوری اقدام کو آئینی تحفظ دیتے ہوں۔

انہوں نے کہا کہ کسی بیان پر آرٹیکل 6 نہیں لگ سکتا، تاہم اس سینیٹ انتخاب میں ’آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض کے کردار سے متعلق میرے پاس کوئی معلومات نہیں لیکن اس میں غیر جمہوری قوتیں ملوث تھیں‘، جبکہ میں نے مہم کے دوران بھی پیسوں کی بات کی تھی۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں جس طرح یہ ادارے چلے اور سیاست میں استعمال ہوئے، اس کو دیکھتے ہوئے جنرل فیض پر یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ آج ایسا کچھ نہ ہو، ان سے امیدیں ہیں کہ وہ اپنے ادارے کو سیاست سے علیحدہ رکھیں گے اور انہیں سیاست کی نظر نہیں ہونے دیں گے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں