’آئین اور وفاق سے کھیلا گیا کھیل، جمہوریت کیلئے نیک شگون نہیں‘

اپ ڈیٹ 03 اگست 2019
میر حاصل بزنجو نے یہ گفتگو کراچی میں ایک روز قیام کے بعد اسلام آباد واپس جاتے ہوئے کی—فائل فوٹو: فیس بک
میر حاصل بزنجو نے یہ گفتگو کراچی میں ایک روز قیام کے بعد اسلام آباد واپس جاتے ہوئے کی—فائل فوٹو: فیس بک

کراچی: نیشنل پارٹی کے سربراہ سینیٹر میر حاصل خان بزنجو نے کہا ہے کہ یہ معنی نہیں رکھتا کہ چیئرمین سینیٹ وہ ہوں یا صادق سنجرانی لیکن آئین اور وفاق سے کھیلا گیا کھیل ملک کی جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں۔

سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد اپوزیشن کی جانب سے مشترکہ طور پر اس عہدے کے لیے نامزد امیدوار میر حاصل خان بزنجو نے یہ گفتگو کراچی میں ایک روز قیام کے بعد اسلام آباد واپس جاتے ہوئے کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'سینیٹ میں جمعرات کو جو کچھ ہوا اس سے آئین بنانے والوں کی روح تڑپی ہوگی کہ اور وہ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا انہوں نے آئین اس طرح استعمال کیے جانے کے لیے بنایا تھا‘۔

یہ بھی پڑھیں: قومی ادارے کے سربراہ پر الزام: سینیٹر حاصل بزنجو عدالت طلب

یاد رہے کہ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد اس وقت ناکام ہوگئی تھی جب اپوزیشن کے 14 اراکین سینیٹ نے پارٹی قیادت کو دھوکہ دیتے ہوئے اپنی ہی لائی گئی قرارداد کے خلاف ووٹ دیا یا جان بوجھ کر اسے ضائع کیا۔

مزید ایک سوال کے جواب میں حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ ’انہیں علم تھا کہ تحریک عدم اعتماد کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے پیسے اور دباؤ کا استعمال کیا جائے گا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہارس ٹریڈنگ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی روایت ہے، گزشتہ برس پنجاب اور وفاقی حکومت کی تشکیل کے وقت جہانگیر ترین کا جہاز اسی طرح اڑ رہا تھا جس طرح صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے وقت اڑا‘۔

مزید پڑھیں: قومی ادارے کے سربراہ پر سینیٹر کا ’الزام‘ بے بنیاد قرار

نیشنل پارٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن، چیئرمین سینیٹ کے خلاف ایک اور تحریک عدم اعتماد لا سکتی ہے لیکن اس قسم کا کوئی بھی فیصلہ آئندہ چند روز میں ہونے والی کثیرالجماعتی کانفرنس میں لیا جائے گا‘۔

ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں صادق سنجرانی سے کوئی دلچسپی نہیں، ہمیں ان عناصر کے بارے میں تشویش ہے جو ایوانِ بالا کو بدنام کرنا چاہتے ہیں‘۔

حاصل بزنجو کا مزید کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے تمام سینیٹرز نے صادق سنجرانی کے خلاف ووٹ دیا تاہم اپوزیشن جماعتوں کو منحرف اراکین کی شناخت کرنے کے لیے تحقیقات کرنی چاہیے اور اپنی وفاداری کو مشکوک بنانے والوں سے استعفیٰ طلب کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تبدیلی کی تحاریک ناکام

انہوں نے کہا کہ اگر اپوزیشن حکومت گرانا چاہتی تو اس میں ایک ماہ سے بھی کم وقت لگے گا، لیکن ہمارا خیال ہے کہ حکومت کو ایک اور انتباہ دینے کی ضرورت ہے اور اب اپوزیشن کے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی چارہ نہیں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں