سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا کے 7 حراستی مراکز کا ریکارڈ طلب کرلیا

اپ ڈیٹ 14 نومبر 2019
صوبائی حکومت حراستی مراکز میں موجود افراد کی مکمل تفصیلات فراہم کرے گی — فائل فوٹو: اے پی پی
صوبائی حکومت حراستی مراکز میں موجود افراد کی مکمل تفصیلات فراہم کرے گی — فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت سے صوبے میں موجود 7 حراستی مراکز کا ریکارڈ طلب کرلیا اور مراکز میں قید کسی شخص کو ہٹانے یا منتقل نہ کرنے سے متعلق خبردار بھی کیا ہے۔

وفاقی حکومت کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے صوبے کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل قاسم ودود کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ' ہم جانتے ہیں کہ پشاور ہائی کورٹ (پی ایچ سی) کی سماعت کے دوران کچھ افراد کو اِدھر سے اُدھر منتقل کیا گیا'۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ' ایسا دوبارہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ حراستی مراکز میں موجود افراد کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی تھیں'۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے خیبرپختونخوا ایکشن ( ان ایڈ آف سول پاور) آرڈیننس 2019 کو دائرہ اختیار سے باہر قرار دینے اور سابق پاٹا ایکٹ 2018 اور سابق فاٹا ایکٹ 2019 کی وجہ سے مذکورہ ایکٹ کو غیر قانونی قرار دینے سے متعلق وفاقی حکومت کی اپیل پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: حراستی مراکز کو غیرقانونی قرار دینے کا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل

حکومت کی اپیل کے علاوہ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر اور انسانی حقوق کے کارکنان افراسیاب خٹک، بشرہ گوہر اور روبینہ سہگل نے مشترکہ چیلنج کیا تھا کہ جس میں عدالت سے خیبرپختونخوا ایکشن ( ان ایڈ آف سول پاور) آرڈیننس 2019 کو ختم کرنے کی استدعا کی گئی ہے کیونکہ یہ شہریوں کے بنیادی حقوق پر مسلط کیا گیا ہے۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے درخواست پر دلائل دیے۔

آرڈیننس کے تحت مسلح فورسز کو کسی بھی فرد کو صوبے میں کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ بغیر وجہ بتائے اور ملزم کو عدالت میں پیش کیے بغیر گرفتاری کا اختیار حاصل ہے۔

24 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا تھا اور موجودہ لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا جس میں چیف جسٹس سمیت جسٹس گلزار احمد، جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ شامل ہیں۔

تاہم آج (14 نومبر کو) صوبائی حکومت حراستی مراکز میں موجود افراد کی مکمل تفصیلات فراہم کرے گی جس میں ان کا حسب نسب، ان کے خلاف الزامات اور ان کے زیرِ حراست ہونے کا عرصہ شامل ہے۔

صوبائی حکومت یہ وضاحت بھی کرے گی کہ ان مراکز کو کون کنٹرول کرتا ہے۔

آرڈیننس کا جائزہ لیتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مشاہدہ کیا کہ صرف گورنر یا مجاز افسران کی ہدایات پر ہی کسی شخص کو حراست میں لیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: خیبرپختونخوا خصوصی اختیارات آرڈیننس کے خلاف درخواست دائر

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس میں کہا کہ ' یہاں ہم شہریوں اور ان کے بنیادی حقوق سے متعلق بات کررہے ہیں جن کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے'۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں مزید کہا کہ ' کیا یہ عدالت کسی کو سول طاقتوں پر قبضہ کرنے کی اجازت دے سکتی ہے؟'۔

اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے کہا کہ ' کیا ہم ایسی صورتحال کی اجازت دے سکتے ہیں جہاں مدد کرنے والے فریق کو تمام اختیارات حاصل ہوں اور سول پاور جس کی مدد کی جارہی ہے اس کے پاس کوئی اختیار ہی نہ ہو، دراصل یہی اختیارات پر قبضہ کرنا ہے'۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ' آئین کا آرٹیکل 10 اے جو منصفانہ ٹرائل اور قانونی عمل کو یقینی بناتا ہے، اس کے تحت کسی شخص کو ایک روز کے لیے حراست میں لیا جاسکتا ہے لیکن اس کے بعد عدالتی اتھارٹی حراست کو کنٹرول کرتی ہے'۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ' کیا آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت عدالتی اختیار اور سول اختیار واپس لیے جاسکتے ہیں جس کے تحت مسلح فورسز کو سول طاقتوں کی مدد کے لیے طلب کیا جاسکتا ہے؟'۔

علاوہ ازیں جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ ' کیا لوگوں کو حراستی مراکز میں غیرمعینہ مدت تک قید کیا جاسکتا ہے؟'۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے لارجر بینچ میں جسٹس قاضی فائز کی موجودگی سے متعلق کہا تھا کہ ایک معزز جج نے وفاقی حکومت، وزیراعظم اور صدر پر اعتراض اٹھایا تھا جس کے نتیجے میں عدالت میں جج کی موجودگی سے تعصب پیدا ہوگا۔

تاہم چیف جسٹس نے اعتراض مسترد کردیا اور سماعت کے اختتام پر اٹارنی جنرل سے کہا تھا کہ ' ہم بطور جج اپنے حلف کے تحت اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور کسی غلط مقصد، خوف اور ذاتی جذبات کے بغیر انصاف فراہم کررہے ہیں، ہم کسی غلط خواہش کے بغیر انصاف فراہم کریں گے'۔


یہ خبر 14 نومبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں