سپریم کورٹ نے حکومت کو پاکستان اسٹیل ملز کی زمین فروخت کرنے سے روک دیا

اپ ڈیٹ 18 نومبر 2019
پاکستان اسٹیل ملز سے دیگر سیکڑوں ملز چلتی تھیں —فائل فوٹو: رائٹرز
پاکستان اسٹیل ملز سے دیگر سیکڑوں ملز چلتی تھیں —فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کو پاکستان اسٹیل ملز (پی ایس ایم) کے سابق ملازمین کو پروویڈنٹ فنڈز اور گریجویٹیز کی ادائیگی کے لیے رقم کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پاکستان اسٹیل ملز کی زمین فروخت کرنے سے روک دیا۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے اسٹیل ملز کے ملازمین کو پروویڈنٹ فنڈز کی فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

واضح رہے کہ یہ معاملہ وزارت صنعت و پیداوار کی جانب سے عدالت کے سامنے لایا گیا تھا، ساتھ ہی ان کے اکاؤنٹس منجمد کرنے کے خلاف درخواست کا معاملہ بھی زیر سماعت آیا۔

مزید پڑھیں: اسٹیل مل کی قسمت کا فیصلہ، اسٹیک ہولڈرز نے وزیر اعظم کو خبردار کردیا

دوران سماعت حکومت کی نمائندگی کرنے والے ڈپٹی ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان اسٹیل ملز کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہیں اور پروویڈنگ فنڈز کی ادائیگی کے لیے مطلوبہ فنڈز نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم (بقایا) جات کی ادائیگی کے لیے زمین فروخت کر رہے ہیں'۔

وکیل کے جواب پر جسٹس گلزار احمد نے پاکستان اسٹیل ملز کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'پاکستان اسٹیل ملز کی پیداوار صفر ہے، اسے اپنی جیبیں بھرنے کے لیے (ذمہ دار لوگوں) کی جانب سے تباہ کردیا گیا'۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ پاکستان اسٹیل ملز بہت بڑا ادارہ تھا، سیکڑوں اسٹیل ملز (پی ایس ایم) کی مدد سے چلتی تھیں، گاڑیاں، ٹرکس اور یہاں تک کہ راکٹس تک یہاں بنتے تھے'۔

بعد ازاں عدالت نے حکومت کو پاکستان اسٹیل ملز کی زمین فروخت کرنے سے روکتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اس زمین کو فروخت نہیں کیا جاسکتا کیونکہ 'یہ عوام کی ملکیت ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: قواعد و ضوابط کے برخلاف پاکستان اسٹیل ملز کے چیئرمین برطرف

ساتھ ہی مذکورہ کیس کی سماعت کو 15 روز کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

علاوہ ازیں وزارت صنعت و پیداوار کے منجمد اکاؤنٹس کے حکم کے خلاف حکومتی درخواست کو واپس لینے کے بعد خارج کردیا گیا۔

واضح رہے کہ 2013 سے 2019 کے درمیان 5 ہزار سے زائد پی ایس ایم ملازمین ریٹائرڈ ہوئے اور ان کے 17 ارب روپے سے زائد کے بقایا جات ہیں جس کی وجہ سے 20 اگست 2019 کو سندھ ہائی کورٹ نے ان فنڈز کی ادائیگی تک وزارت صنعت و پیداوار کے اکاؤنٹس منجمد کردیے تھے۔

رواں سال ستمبر میں نجکاری کمیشن کو بھیجے گئے خط میں پی ایس ایم سی کے اسٹیک ہولڈرز گروپ کا کہنا تھا کہ ان کے اراکین وزارت صنعت و پیداوار کے متاثرین ہیں، جن کے 80 ارب روپے کے بقایاجات ہیں تاہم اس پر کوئی سنوائی نہیں ہوئی اور 190 ارب روپے کے دیگر قرض دہندگان بھی پی ایس ایم میں پھنسے ہوئے ہیں، جولائی 2019 میں وزارت کا مجموعی قرضہ 270 ارب تھا جبکہ وزیر اعظم کو رواں ماہ کے آغاز میں وزارت نے وزیر اعظم کو یہ 217 ارب روپے بتایا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں