مصر میں میڈیا دفتر پر چھاپا، 3 صحافی گرفتار

اپ ڈیٹ 25 نومبر 2019
گرفتار کیے گئے صحافی اس وقت کہاں ہیں اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی
گرفتار کیے گئے صحافی اس وقت کہاں ہیں اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی

قائرہ: مصر کی پولیس نے مقامی صحافتی ادارے مدی مصر کے دفتر پر چھاپہ مار کر اس سے وابستہ 3 نیوز ایڈیٹرز کو گرفتار کرلیا۔

ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق مصر کی آزاد نیوز سائٹ نے بتایا کہ' سیکیورٹی فورسز جاچکی ہیں، ہمارے دفاتر میں داخل ہونے والے ایک شخص کے مطابق ہمیں صرف ہمارے فونز اور لیپ ٹاپس واپس ملے ہیں، لینا اتالا، محمد حمامہ اور رانا ممدوہ کو پروسیکیوشن سروس لے جایا گیا ہے'۔

صحافتی ادارے مدی مصر نے سوشل میڈیا پر جاری پوسٹ میں لکھا کہ ' سادہ لباس میں ملبوس 9 افسران نے کئی گھنٹوں تک ویب سائٹ کے صحافیوں سے پوچھ گچھ کی، ان سے فونز اور لیپ ٹاپ ان لاک کرکے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا'.

مزید پڑھیں: مصر: الجزیرہ چینل کے صحافی کی حراست میں 17ویں مرتبہ توسیع

واضح رہے کہ گرفتار کیے گئے صحافی اس وقت کہاں ہیں اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ روز مقامی وقت کے مطابق دوپہر ڈیڑھ بجے مدی مصر کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا تھا، اس چھاپے سے ایک روز قبل اسی ویب سائٹ پر 2014 سے وابستہ 37 سالہ نیوز ایڈیٹر شیدی زلات کو ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔

نیوز ویب سائٹ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بتایا گیا کہ 'شیدی زلات کو گزشتہ شام ساڑھے 5 بجے رہا کیا گیا تھا'۔

خیال رہے کہ مصری ویب سائٹ مدی مصر عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں کرپشن اور سیکیورٹی مسائل سے متعلق تحقیقات شائع کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی پی آئی کا مصر کی حکومت سے صحافی کو رہا کرنے کا مطالبہ

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ گزشتہ برس مصر کی عدالت نے الجریزہ چینل کے صحافی محمود حسین کی حراست میں 17 ویں مرتبہ توسیع کی تھی جنہیں 20 دسمبر 2016 کو قائرہ کے ایئرپورٹ پر اس وقت گرفتار کیا تھا، جب وہ چھٹیاں منا کر مصر واپس پہنچے تھے۔

اس سے قبل اگست 2015 میں مصر نے عربی چینل الجریزہ سے تعلق رکھنے والے کینیڈین نژاد محمد فہمی، مصری شہری باہر محمد اور تیسرے صحافی پیٹر گریٹس کو جعلی خبر پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا بعدازاں تمام صحافیوں کو چھوڑ دیا گیا تھا۔

تاہم مصر کے اس اقدام پر عالمی میڈیا اور سیاستدانوں نے شدید تنقید کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Nov 26, 2019 12:21am
یہ بات بالکل سمجھ میں نہیں آتی کہ صحافیوں اور دوسرے آواز اٹھانے والوں کو بغیر عدالت لے جائے حراست میں رکھنے سے جو بدنامی ہوتی ہے اس کو حکومتیں کیوں محسوس نہیں کرتیں اور خومخواہ اپنے آپ کو ڈھیٹ کہلوانا کیوں پسند کرتی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اس قسم کے اقدام سے یہ ثابت بھی ہوتا ہے کہ جو حکومت ایسا کر رہی ہے وہ ظالم ہے، اس کے پاس دلیل کی کمی ہے، وہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس میں یقین رکھتی ہے، اور کسی بات کو وہ چھپا رہی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان کی منطق یہ ہے کہ آئینہ توڑ دینے سے بدصورتی ختم ہو سکتی ہے۔ ہیں؟