سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کردیا

اپ ڈیٹ 27 نومبر 2019
وزیراعظم نے اگست میں آرمی چیف کی مزید 3 سال کے لیے 
 توسیع کی تھی— فائل فوٹو: اے ایف پی
وزیراعظم نے اگست میں آرمی چیف کی مزید 3 سال کے لیے توسیع کی تھی— فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن کل (بدھ) تک کے لیے معطل کرتے ہوئے آرمی چیف، وفاقی حکومت اور وزارت دفاع کو نوٹس جاری کردیے۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے جیورسٹ فاؤنڈیشن کی جانب سے ان کے وکیل ریاض حنیف راہی کے توسط سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

خیال رہے کہ 25 نومبر کو جیورسٹ فاؤنڈیشن نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

درخواست واپس لینے کی استدعا مسترد

سماعت کے آغاز پر ہی درخواست گزار جیورسٹ فاؤنڈیشن کے وکیل ریاض حنیف راہی کی جانب سے درخواست واپس لینے کی استدعا کی گئی۔

مزید پڑھیں: سرکاری ملازم کی توسیع نقصان دہ نہیں مگر آرمی چیف کا معاملہ الگ ہے

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک درخواست موصول ہوئی ہے، درخواست گزار اور ایڈووکیٹ آن ریکارڈ موجود ہے جبکہ اس درخواست کے ساتھ کوئی بیان حلفی بھی موجود نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ یہ درخواست آزادانہ طور پر دی گئی ہے یا بغیر دباؤ کے، اس لیے ہم درخواست واپس لینے کی درخواست نہیں سنیں گے۔

درخواست ازخود نوٹس میں تبدیل

بعد ازاں سپریم کورٹ نے درخواست واپس لینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 184 (سی) کے تحت عوامی مفاد میں اس درخواست پر سماعت کی اور اسے ازخود نوٹس میں تبدیل کردیا۔

درخواست پر سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ میں اٹارنی جنرل انور منصور خان پیش ہوئے۔

وزیراعظم کو توسیع کا اختیار نہیں، چیف جسٹس

سماعت کے دوران چیف جسٹس کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ 'صرف صدر مملکت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرسکتے ہیں'، وزیراعظم کو اس توسیع کا اختیار نہیں، جس پر عدالت میں موجود اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع صدر کی منظوری کے بعد کی گئی اور سمری کو کابینہ کی جانب سے منظور کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ میں بھی اس طرح کی درخواست دائر ہوئی تھی جو واپس لے لی گئی تھی۔

عدالت میں اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدر نے 19 اگست کو آرمی چیف کی توسیع کی منظوری دی تو 21 اگست کو وزیراعظم نے کیسے منظوری دے دی، سمجھ نہیں آرہا کہ صدر کی منظوری کے بعد وزیراعظم نے دوبارہ کیوں منظوری دی۔

اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کابینہ کی منظوری کے بعد وزیراعظم نے دستخط کیے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا کابینہ اور وزیراعظم کی منظوری کے بعد صدر نے دوبارہ منظوری دی، اس پر انہیں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ صدر مملکت نے کوئی منظوری نہیں دی۔

کابینہ کے 14 ارکان نے آرمی چیف کی توسیع پر رائے نہیں دی، چیف جسٹس

اٹارنی جنرل کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ حتمی منظوری تو صدر مملکت دیتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے 19 تاریخ کو وزیراعظم نے توسیع کا لیٹر جاری کردیا پھر وزیراعظم کو بتایا جاتا ہے کہ آپ کا اختیار نہیں بلکہ فیصلہ کابینہ کرے گی، بعد ازاں کابینہ نے جاری نوٹیفکیشن کی تاریخ سے توسیع کی منظوری دی۔

یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدر نے کابینہ سے پہلے جو منظوری دی وہ شاید قانون کے مطابق صحیح نہ ہو، دستاویزات کے مطابق کابینہ کی اکثریت نے توسیع پر کوئی رائے نہیں دی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 25 رکنی کابینہ میں سے صرف 11 نے توسیع کے حق میں رائے دی جبکہ 14 ارکان نے عدم دستیابی کے باعث کوئی رائے نہیں دی۔

اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جنہوں نے رائے نہیں دی انہوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کابینہ ارکان کو سوچنے کا موقع بھی نہیں دینا چاہیے، کابینہ کے 14 ارکان نے ابھی تک آرمی چیف کی توسیع پر ہاں نہیں کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کابینہ کی اکثریت نے منظوری دی، 25 میں سے 11 وزار کے ناموں کے سامنے 'ہاں' لکھا گیا، جمہوریت میں یہ فیصلے اکثریت رائے سے ہوتے ہیں، جن ارکان نے جواب نہیں دیا ان کا انتظار کرنا چاہیے تھا، ان اراکین نے 'ناں' بھی تو نہیں کی۔

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے کہا کہ کیا حکومت کابینہ ارکان کی خاموشی کو 'ہاں' سمجھتی ہے؟ کیا نوٹیفکیشن کابینہ سے منظوری کے بعد وزیراعظم سے ہوتے ہوئے صدر تک نہیں جانا چاہیے تھا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم صدر مملکت سے دوبارہ منظور لے سکتے ہیں۔

آرمی چیف سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 255 کے تحت ازسر نو تقرر کا اختیار نہیں توسیع کا ہے، یہاں سمری میں توسیع کا لفظ استعمال کیا گیا جبکہ ازسر نو تقرر کیا جارہا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ آرمی چیف کب ریٹائر ہورہے ہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 29 نومبر کو آرمی چیف ریٹائر ہورہے ہیں، ساتھ ہی اٹارنی جنرل کی بات پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے پوچھا کہ آرمی چیف کی اس وقت عمر کیا ہے۔

عدالت میں جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ قانون میں توسیع کے لیے کوئی شق ہے، کابینہ میں توسیع کی کوئی وجوہات زیر بحث نہیں آئیں، کیا کابینہ نے توسیع کی منظوری دیتے ہوئے اپنا ذہن اپلائی کیا، ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ توسیع کی منظوری سرکولیشن سے کابینہ سے لی گئی۔

بعد ازاں عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کر رہے ہیں، ساتھ ہی عدالت نے آرمی چیف سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ اس درخواست میں عدالت آرمی چیف کو فریق بنارہی ہے۔

علاقائی سیکیورٹی سے نمٹنا فوج کا بطور ادارہ کام ہے، عدالت

جس کے بعد عدالتی حکم نامہ جاری کیا گیا،جس میں آرمی چیف کو باضابطہ فریق بنایا گیا جبکہ جنرل قمر جاوید باجوہ، وزارت دفاع اور وفاقی حکومت کو نوٹسز جاری کردیے۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی سمری پیش کی گئی، وزیراعظم نے 19 اگست کو اپنے طور پر تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا، نوٹیفکیشن کے بعد غلطی کا احساس ہوا اور وزیراعظم نے صدر کو سمری بھجوائی، صدر نے 19 اگست کو ہی سمری کی منظوری دے دی۔

مزید پڑھیں: آرمی چیف کی مدت میں توسیع کےخلاف درخواست کی سماعت کیلئے بینچ تشکیل

حکم نامے کے مطابق عدالت کو یہ بتایا گیا کہ علاقائی سیکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع دی جارہی ہے، خطے کی سیکیورٹی صورت حال والی بات عمومی ہے، علاقائی سیکیورٹی سے نمٹنا فوج کا بطورادارہ کام ہے کسی ایک افسر کا نہیں، علاقائی سیکیورٹی کی وجہ مان لیں تو فوج کا ہر افسر دوبارہ تعیناتی چاہے گا۔

عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل مدت ملازمت میں توسیع یا نئی تعیناتی کا قانونی جواز فراہم نہ کرسکے، اٹارنی جنرل نے قانون کی کوئی ایسی شق نہیں بتائی جس میں چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع اور دوبارہ تعیناتی کی اجازت ہو۔

حکم نامے کے مطابق آرمی رولز کے تحت صرف ریٹائرمنٹ کو عارضی طورپر معطل کیا جاسکتا ہے، ریٹائرمنٹ سے پہلے ریٹائرمنٹ معطل کرنا گھوڑے کے آگے چھگڑا باندھنے والی بات ہے۔

اپنے حکم نامے میں عدالت نے کہا کہ کیس میں اٹھنے والے تمام نکات کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، وفاقی کابینہ کے 25 میں سے صرف 11 ارکان نے توسیع کی منظوری دی، صدر کی منظوری کے بعد معاملہ کابینہ میں پیش کیا گیا، کابینہ کے بعد سمری وزیراعظم اور صدر کو پیش نہیں کی گئی۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ وزیراعظم نے خود حکم پاس کرکے موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع دی، آرٹیکل 243 کے تحت صدر مجازاتھارٹی ہوتا ہے جبکہ اٹارنی جنرل کے مطابق وفاقی حکومت کے پاس اختیار ہے کہ سروسز چیف کومدت ملازمت میں توسیع دے۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کب ہوئی؟

یاد رہے کہ رواں سال 19 اگست کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کردی گئی تھی۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کردی گئی—فوٹو: ثنااللہ
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کردی گئی—فوٹو: ثنااللہ

وزیراعظم آفس سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے موجودہ مدت مکمل ہونے کے بعد سے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید 3 سال کے لیے آرمی چیف مقرر کیا۔

یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر صحافی، سیاستدان کیا کہتے ہیں؟

نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ علاقائی سیکیورٹی کی صورتحال کے تناظر میں کیا گیا۔

آرمی چیف کو مزید 3 برس کے لیے پاک فوج کا سربراہ مقرر کرنے کے فیصلے کا مختلف سیاستدانوں اور صحافی برادری نے خیر مقدم کیا تھا۔

تاہم چند حلقوں کی طرف سے حکومت کے اس فیصلے پر تنقید بھی کی جارہی تھی۔

خیال رہے کہ 29 نومبر 2016 کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد ان کی جگہ پاک فوج کی قیادت سنبھالی تھی، انہیں اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے فوج کا سربراہ تعینات کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں