نیب نے شاہد خاقان و دیگر کے خلاف ایل این جی کیس میں ریفرنس دائر کردیا

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا کہ ملزمان نے 2015 سے ستمبر 2019 تک ایک کمپنی کو 21 ارب روپے سے زائد کا فائدہ پہنچایا —تصویر: نیب ویب سائٹ
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا کہ ملزمان نے 2015 سے ستمبر 2019 تک ایک کمپنی کو 21 ارب روپے سے زائد کا فائدہ پہنچایا —تصویر: نیب ویب سائٹ

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کیس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل، پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر شیخ عمران الحق اور اوگرا کے سابق چیئرمین سعید احمد خان سمیت دیگر ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر کردیا۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت میں دائر ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا کہ ملزمان نے 2015 سے ستمبر 2019 تک ایک کمپنی کو 21 ارب روپے سے زائد کا فائدہ پہنچایا، جس سے 2029 تک قومی خزانے کو 47 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔

ایل این جی ریفرنس میں کہا گیا کہ معاہدے کے باعث عوام پر گیس بل کی مد میں 15 سال کے دوران 68 ارب روپے سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔

ریفرنس میں مجموعی طور پر 10 ملزمان کو نامزد کیا گیا، جس میں نامزد چیئرمین اوگرا عظمیٰ عادل، چیئرمین اینگرو گروپ حسین داود اور عبدالصمد شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: شاہد خاقان کے خلاف ایل این جی ریفرنس دو ہفتے میں دائر کیا جائے گا، نیب

قبل ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ریفرنس، نیب کے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس (ای بی ایم) میں پیش کیا جائے گا جہاں منظوری کے بعد اسے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں دائر کردیا جائے گا۔

کیس کے دونوں مرکزی ملزمان شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسمٰعیل اس کیس کے سلسلے میں 4 ماہ سے زیرحراست ہیں جبکہ عمران الحق نے گزشتہ منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کی تھی۔

مذکورہ ریفرنس میں، جن 10 ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے، ان میں سے 2 وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں جبکہ نیب ذرائع کے مطابق اس اسکینڈل میں 20 ارب روپے کی کرپشن کی گئی۔

اس سلسلے میں میڈیا رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ کچھ عرصہ قبل گرفتار کیے گئے سیکریٹری پیٹرولیم عابد سعید، ایل این جی کیس میں وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے جن کے بیان کی روشنی میں شاہد خاقان عباسی کو گرفتار کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: نیب نے شاہد خاقان عباسی کیخلاف ایک اور ریفرنس کی سفارش کردی

نیب کی جانب سے سابق وزیراعظم کو ارسال کردہ نوٹس میں کہا گیا تھا کہ ’متعلقہ حکام نے نیب آرڈیننس 1999 کے تحت دھوکا دہی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور ایل جی ٹرمینل ون کے ٹھیکے میں بدعنوانی، بے ایمانی اور غیرقانونی ذرائع سے فوائد حاصل کرنے کے الزام میں آپ (شاہد خاقان عباسی) کے کیے گئے جرم کا جائزہ لیا'۔

نیب دستاویزت کے مطابق ’تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ آپ کے پاس ایل این جی ٹرمینل ون کا ٹھیکہ ایک نجی کمپنی ایم/ایس ای ای ٹی پی ٹی کو دینے کے حوالے سے معلومات اور شواہد موجود تھے، جو کمیشن سے متعلق ہیں‘۔

خیال رہے کہ اپریل میں حکومت نے اس کیس میں 5 دیگر افراد کے علاوہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل اور شاہد خاقان عباسی کے بیرونِ ملک سفر پر پابندی عائد کردی تھی۔

اس سے قبل جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن کے مطابق یہ 36 ارب 96 کروڑ 90 لاکھ روپے کا اسیکنڈل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایل این جی کیس: شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسمٰعیل عدالتی ریمانڈ پر جیل منتقل

شاہد خاقان عباسی پر سابق وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ میں بحیثیت وزیر پیٹرولیم قواعد کے خلاف ٹھیکا دینے کا الزام ہے، اس کیس کو 2016 میں بند کردیا گیا تھا تاہم 2018 میں اسے دوبارہ کھولا گیا تھا۔

2 جنوری کو نیب کے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں سابق وزیر پیٹرولیم اور قدرتی وسائل کی حیثیت سے شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی کی برآمدات میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات کی منظوری دی گئی تھی۔

تاہم شاہد خاقان عباسی متعدد مرتبہ ان الزامات کی یہ کہہ کر تردید کرچکے ہیں کہ انہوں نے ایل این جی درآمدات کے ٹھیکے دینے میں کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا اور وہ کسی بھی فورم پر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ان کا موقف تھا کہ 2013 میں ایل این جی کی درآمدات وقت کی ضرورت تھی کیوں کہ اس وقت ملک کو گیس کی شدید کمی کا سامنا تھا۔

خیال رہے کہ شاہد خاقان عباسی کے خلاف یہ نیب کا پہلا کیس ہے۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس میں ایل این جی پلانٹس کے مالک گرفتار

نیب دستاویز کے مطابق اینگرو گروپ کے کیمیکل ٹرمینل کو حکومت نے 2 کروڑ 70 لاکھ روپے روزانہ کرائے پر 15 سال کی مدت کے لیے حاصل کیا، جس کی مجموعی لاگت 15 ارب روپے بنتی ہے۔

حکومت کی جانب سے قطر سے درآمد کی گئی ایل این جی کی ہینڈلنگ کے لیے اس ٹرمینل کا کرایہ سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) اور پی ایس او، اینگرو کو ادا کرتے ہیں، دستاویز کے مطابق اینگرو ٹرمینل استعمال کیا جائے یا نہیں اس کے باجود اینگرو کو کرایہ ادا کیا جائے گا۔

دستاویز میں یہ بھی بتایا گیا کہ پورٹ قاسم پر سرکاری ملکیت کا پیٹرولیم مائع گیس (پی ایل جی) ٹرمینل موجود تھا، جسے معمولی تبدیلیاں کر کے درآمد شدہ ایل این جی کی ہینڈلنگ کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا اور اس کی لاگت 3 سے 4 کروڑ روپے پڑتی۔

تبصرے (0) بند ہیں