آصف زرداری و فریال تالپور درخواست ضمانت سماعت کیلئے مقرر

اپ ڈیٹ 03 دسمبر 2019
آصف زرداری نے طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست دائر کی —فائل فوٹو: اے ایف پی
آصف زرداری نے طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست دائر کی —فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کی جانب سے دائر کی گئی درخواست ضمانت کو سماعت کے لیے مقرر کردیا۔

وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل اسپیشل بینچ کل (بدھ) کو اس درخواست پر سماعت کرے گا۔

قبل ازیں عدالت عالیہ میں سابق صدر کی جانب سے اپنے وکیل فاروق ایچ نائیک کے توسط سے عدالت میں جعلی اکاؤنٹس اور پارک لین کیسز میں ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

آصف زرداری کی جانب سے طبی بنیادوں پر ضمانت کے لیے دائر کی گئی درخواست میں قومی احتساب بیورو (نیب) اور احتساب عدالت نمبر 2 کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ درخواست گزار قانون پر عملدرآمد کرنے والی شخصیت ہیں اور ان کی عوام میں ایک اچھی ساکھ ہے۔

مزید پڑھیں: آصف زرداری کی طبی بنیادوں پر ضمانت کیلئے درخواست دیں گے، بلاول بھٹو

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ درخواست گزار پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے شوہر ہیں جبکہ وہ 2008 سے 2013 تک ملک کے 11ویں صدر بھی رہ چکے ہیں۔

آصف زرداری نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا جبکہ ان کے اوپر بنائے گئے کیسز جعلی اور من گھڑت ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ آصف علی زرداری دل کے مریض ہیں اور ان کے 3 اسٹنٹ ڈلے ہوئے ہیں جبکہ ان کے سینے سے ہولٹر مانیٹر بھی لگا ہوا ہے تاکہ ڈاکٹر ان کی دھڑکن کو مانیٹر کرسکیں۔

ساتھ ہی آصف زرداری نے یہ موقف اپنایا کہ ان کو ذیابیطس کا مرض بھی ہے اور ان کا شوگر لیول اوپر اور نیچے خطرناک حد تک ہوتا رہتا ہے، جس کی نگرانی کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ درخواست میں کہا گیا کہ درخواست گزار کو مزید بیماریاں بھی لاحق ہیں، لہٰذا ان کے علاج کے لیے طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور کی جائے۔

علاوہ ازیں فریال تالپور کی جانب سے بھی اپنی ضمانت کی درخواست دائر کی گئی، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ وہ ایک خصوصی بچی کی والدہ ہیں اور ان بچی کی دیکھ بھال کے لیے ٹرائل مکمل ہونے تک ضمانت دی جائے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی، آصف زرداری کی طبی بنیادوں پر ضمانت کے لیے درخواست دے گی اور امید ہے فوری اجازت مل جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: آصف زرداری، فریال تالپور کو جیل میں 'اے کلاس' سہولیات دینے کی درخواست مسترد

بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ ڈاکٹر، آصف زرداری کے ‘دل کے حوالے سے ایک رکاوٹ کی تشخیص کرنا چاہتے لیکن سابق صدر نے ہمیں روکا تھا کہ ہم ضمانت کے لیے رجوع نہیں کرسکتے'۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ 'خاندان، بہنوں اور ہم سب کے لیے مشکل لمحہ تھا اس لیے ہمیں وہ اتنا اعتماد نہیں ہے'، لہٰذا 'آج آصف زرداری نے آصفہ بھٹو کی درخواست کو مانا ہے اور پیپلز پارٹی، صدر زرداری کی طبی بنیادوں پر ضمانت کے لیے رجوع کرے گی اور کل جب ہم حتمی درخواست جمع کرائیں گے تو امید ہے کہ جلد از جلد ضمانت مل جائے گی’۔

کیس کا پس منظر

2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35 ارب روپے بتائی گئی تھی۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

مزید پڑھیں: آصف زرداری کو علاج کیلئے کراچی منتقل کرنے کی درخواست مسترد

بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس پر وفاقی حکومت نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے تھے۔

تاہم 172 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کیا تھا اور معاملے پر نظرثانی کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا تھا۔

اس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ کیس نیب کے سپرد کرتے ہوئے 2 ماہ میں تحقیقات کا حکم دیا تھا اور نیب نے اس کے لیے مشترکہ انویسٹی گیشن ٹیم قائم کی تھی، جس کے سامنے آصف زرداری پیش ہوئے تھے۔

15 مارچ کو کراچی کی بینکنگ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ سے متعلق کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی نیب کی درخواست منظور کی تھی۔

جس کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے اس کیس میں نامزد آٹھوں ملزمان کو طلب کرتے ہوئے سماعت 8 اپریل تک ملتوی کی تھی اور 9 اپریل کو احتساب عدالت نے باقاعدہ طور پر جعلی بینک اکاؤنٹس اور میگا منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کا آغاز کیا تھا۔

مذکورہ کیس میں آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی ضمانت قبل از گرفتاری میں مسلسل توسیع ہوتی رہی تاہم آصف زرداری کو 10 جون جبکہ ان کی بہن کو 14 جون کو گرفتار کرلیا تھا جن کے ریمانڈ میں کئی مرتبہ توسیع ہوئی اور اس وقت آصف زرداری عدالتی ریمانڈ پر ہونے کے باعث جیل میں تھے، تاہم ان کی طبیعت خرابی پر انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں