افغانستان میں مبینہ جرائم کی تفتیش عالمی عدالت میں شروع

اپ ڈیٹ 05 دسمبر 2019
انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے رواں برس تفتیش کی درخواست کو مسترد کردیا تھا—فوٹو:اے پی
انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے رواں برس تفتیش کی درخواست کو مسترد کردیا تھا—فوٹو:اے پی

انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) نے افغانستان میں طویل جنگ کے دوران مبینہ طور پر ہونے والے جرائم پر تفتیش کے حوالے سے تین روزہ سماعت کا آغاز کردیا۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں قائم عدالت میں 82 افغان متاثرین کی نمائندگی کرنے والے وکیل فیرگل گینور نے افغانستان میں احتساب کے لیے ایک تاریخی دن قرار دے دیا۔

یاد رہے کہ رواں برس اپریل میں ججوں نے عدالتی پراسکیوٹر فاتو بینسودا کی جانب سے افغانستان میں طالبان، افغان سیکیورٹی فورسز، امریکی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے جرائم کی تفتیش کے حوالے سے دائر درخواست کو مسترد کردیا تھا۔

مزید پڑھیں:عالمی عدالت نے افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ مسترد کردیا

ججوں نے فیصلے میں کہا تھا کہ ‘تفتیش انصاف کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتی کیونکہ یہ ممکنہ طور پر عدم تعاون کے باعث ناکام ہوگی' جبکہ متاثرین اور انسانی حقوق کی تنظمیوں نے اس فیصلے کی مذمت کی تھی۔

آئی سی سی کا یہ فیصلہ امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو کی جانب سے آئی سی سی کے عملے کو امریکی فوجیوں سے افغانستان یا دیگر مقامات میں جرائم کے الزامات کی تفتیش کے لیے ویزے جاری کرنے پر پابندی عائد کرنے کے ایک مہینے بعد آیا تھا۔

پراسیکیوٹر فاتو بینسودا نے تفتیش شروع کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ٹھوس معلومات ہیں کہ امریکی فوجی اور خفیہ ایجنسیاں ‘افغانستان اور دیگر متاثرہ علاقوں میں تشدد، ظالمانہ برتاؤ، عزت نفس پر اثر انداز، ریپ، جنسی زیادتیوں میں ملوث رہی ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان اور دیگر جنگجو گروپوں نے 2009 سے اب تک 17 ہزار سے زائد شہریوں کو قتل کیا جس میں تقریباً 7 ہزار افراد کی ٹارگٹ کلنگ بھی شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پراسیکیوٹر کو ویزا جاری نہ کرنے کا معاملہ، یورپی یونین کا آئی سی سی کی حمایت کا اعلان

افغان سیکیورٹی فورسز پر بھی جرائم کا الزام عائد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان سیکیورٹی فورسز نے حکومت کے زیر انتظام جیلوں میں قیدیوں پر تشدد کیا۔

ججوں نے رواں برس پراسیکیوٹر بینسو داس کی درخواست کو مسترد کرنے کے باوجود اعتراف کیا تھا کہ 2017 میں دائر کی گئی یہ درخواست تفتیش کے حوالے سے مضبوط بنیادوں پر قائم ہے اور افغانستان میں ہوئے یہ جرائم آئی سی سی کی حدود میں آتے ہیں۔

عدالت نے کہا تھا کہ یہ مضبوط مقدمات عدالت کے سامنے قابل سماعت ہوں گے۔

دی ہیگ میں شروع ہونے والی سماعت کے پہلے روز اس بات پر زور دیا گیا کہ آیا متاثرین کو عدالت کے اولین دستاویزات کے تحت اپیل کا حق حاصل ہے یا نہیں۔

متاثرین کے وکیل فیرگل گینور نے پانچ رکنی پینل کو بتایا کہ متاثرین کے موقف کو اپیل کے زمرے میں لینا ضروری ہے۔

مزید پڑھیں:عالمی عدالت نے فوجیوں کو جنگی جرائم میں کھینچا تو ججز کو گرفتار کرلیں گے، امریکا

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم یہاں پر ان کے مسترد کیے گئے حق کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے موجود ہیں جس سے انہیں انصاف اور احتساب کے حوالے سے امیدوں کو دھچکا لگا ہے’۔

وکیل نے کہا کہ یہ نہایت اہم ہے کہ متاثرین اس فیصلے کے خلاف اپیل کرسکیں جو ان کے حق کے لیے مکمل اور واضح طور پر خطرناک ہے۔

فیرگل گینور نے عدالت کو بتایا کہ ‘افغانستان میں جرائم کی تفتیش کرنے کے لیے ریاستیں دلچسپی نہیں رکھتیں یا اس قابل نہیں ہیں اس لیے متاثرین کے لیے غیر جانبدار تفتیش کے لیے دنیا میں واحد راستہ یہ عدالت ہے’۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں