عمران فاروق قتل کیس: ویڈیو لنک پر بیان ریکارڈ کرنے کیلئے ایف آئی اے کی درخواست منظور

اپ ڈیٹ 05 دسمبر 2019
ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن میں قائم ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی
ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن میں قائم ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کیس میں اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے 32 برطانوی گواہان کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرنے کی درخواست منظور کرلی۔

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے عمران فاروق قتل کیس کی سماعت کی۔

ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز احمد نے گواہان کی فہرست عدالت میں پیش کی اور ان کے بیانات ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرنے کی درخواست دی جس میں عمران فاروق کی بیوہ بھی شامل ہیں۔

دورانِ سماعت وکلا صفائی نے برطانوی گواہوں کے بیانات ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرنے پر اعتراض اٹھایا۔

مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: برطانوی پولیس نے انتہائی اہم شواہد جمع کرادیے

جس پر ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ کیس میں ثبوت برطانیہ اور پاکستان کے درمیان باہمی قانونی معاونت کے ذریعے حاصل کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گواہوں کے بیانات کے لیے لندن میں انتظامات جاری ہیں، انتظامات مکمل ہوجائیں تو ہم روزانہ کی بنیاد پر بیان ریکارڈ کروائیں گے۔

تاہم جج شاہ رخ ارجمند نے فہرست میں غیر ضروری نام شامل ہونے پر اعتراض اٹھایا جس پر ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ موقع آنے پر غیر ضروری گواہوں کو ترک کر دیا جائے گا۔

ایف آئی کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالت کے آرڈر اٹارنی جنرل کو بھجوائیں گے جو برطانیہ کی بارڈر ایجنسی کو مطلع کریں گے اور یہ تمام کارروائی وزارت خارجہ کے ذریعے ہو گی۔

بعدازاں دونوں فریقین کی جانب سے دلائل سننے کے بعد عدالت نے ایف آئی اے کی درخواست منظور کرلی۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: انسداد دہشتگردی عدالت میں اہم شواہد جمع

خٰیال رہے کہ 2 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں 3 برطانوی گواہان بھی اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے عدالت میں پیش ہوئے تھے جن میں برطانوی پولیس کے چیف انسپکٹر، سارجنٹ اور کانسٹیبل شامل تھے۔

انسداد دہشت گردی عدالت میں اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے چیف انویسٹی گیشن افسر اسٹیورڈ گرین وے نے بتایا تھا کہ عمران فاروق کیس کی تفتیش کا نام 'آپریشن ہیسٹار' رکھا ہے۔

چیف انویسٹی گیشن آفیسر نے عدالت میں ملزم محسن علی کی برطانیہ پہنچنے سے متعلق دستاویزات، ای میلز، ان کا تعلیمی ریکارڈ اور کالج حاضری کا ریکارڈ پیش کیا۔

ساتھ ہی انہوں نے آلہ قتل، واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج، ایک اینٹ، 2 تیز دھار چاقو، فنگر پرنٹس کرائم سین کا خاکہ اور نقشہ بھی عدالت میں پیش کیا تھا۔

ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا تھا۔

برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاؤنڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی تھی۔

برطانوی پولیس کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تصاویر کے مطابق 29 سالہ محسن علی سید فروری سے ستمبر 2010 تک برطانیہ میں مقیم رہا تھا جبکہ 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 کے اوائل میں برطانیہ پہنچا تھا۔

مزیدپڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: ٹرائل روکنے سے متعلق ایف آئی اے کی درخواست مسترد

دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے اسٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔

جون 2015 میں 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی گئی تھی جبکہ معظم علی کو کراچی میں نائن زیرو کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔

تینوں ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں تھے، ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی۔

یکم دسمبر 2015 کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران فاروق قتل کیس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

5 دسمبر 2015 کو حکومت پاکستان نے بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا، جو ایف آئی اے کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر انعام غنی کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

مقدمے میں ایم کیو ایم کے رہنما محمد انور اور افتخار حسین کے علاوہ معظم علی خان، خالد شمیم، کاشف خان کامران اور سید محسن علی کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی سازش اور قاتلوں کو مدد فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے جبکہ مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات 34، 109، 120بی،302 اور 7 شامل کی گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: دو ملزمان کا اعتراف جرم

6 دسمبر 2015 کو 3 مبینہ ملزمان معظم علی، سید محسن اور خالد شمیم کو ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

8 جنوری 2016 کو اس مقدمے میں ملوث ملزمان میں سے دو نے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا۔

ملزم محسن علی اور خالد شمیم نے جرم کا اعتراف کیا تھا جبکہ قتل کے مبینہ مرکزی ملزم معظم علی نے جرم سے انکار کردیا تھا۔

9 جنوری 2016 کو عمران فاروق قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی تھی، جب گرفتار ملزمان نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کئی اہم انکشافات کیے تھے۔

گرفتار ملزمان نے اعتراف کیا تھا کہ عمران فاروق کا قتل ایم کیو ایم کے سینئر رہنما محمد انور کی ہدایت پر کیا گیا کیونکہ محمد انور کا خیال تھا کہ عمران فاروق الگ گروپ بنانا چاہتے تھے۔

ملزم کاشف نے انکشاف کیا تھا کہ پارٹی کی قیادت سے حکم ملا تھا کہ عمران فاروق کو قتل کردو، انکشاف کے دوران انہوں نے بتایا تھا کہ ملزم معظم کو فون کرکے کوڈ ورڈ ’ماموں کی صبح ہوگئی‘ میں اطلاع دی، جس کا مطلب تھا عمران فاروق کو قتل کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: ایف آئی اے ملزمان کے خلاف چالان جمع نہیں کراسکی

خیال رہے کہ ملزم کاشف کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کا انتقال ہوچکا ہے۔

21 اپریل 2016 کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے کیس چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوانے کا حکم دے دیا تھا۔

29 اپریل 2016 کو عمران فاروق قتل کیس کے اہم ملزم خالد شمیم کے ایک ویڈیو بیان نے سرکاری اور سیاسی حلقوں میں بے چینی پیدا کردی تھی۔

جیل میں قید خالد شمیم نے ویڈیو میں الزام لگایا تھا کہ ایم کیو ایم قائد الطاف حسین ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث تھے۔

ویڈیو میں خالد شمیم نے کہا تھا کہ 'جب عمران فاروق کی میت پاکستان لائی گئی تو انہوں نے (الطاف حسین نے) مصطفیٰ کمال کو فون کیا اور کہا کہ کام ہوگیا ہے'۔

04 مئی 2016 وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں عمران فاروق قتل کیس کا عبوری چالان ساتویں بار پیش کیا تھا، جس کو منظور کرتے ہوئے عدالت نے 12 مئی سے اڈیالہ جیل میں باقاعدہ ٹرائل کا فیصلہ کیا تھا۔

28 مئی کو پاکستان آنے والی اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم واپس برطانیہ روانہ ہو گئی، ٹیم نے عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے پاکستان میں گرفتار ملزمان کا انٹرویو کیے تھے جبکہ پاکستانی تحقیقاتی اداروں کے سامنے کیے گئے اعترافی بیانات کا بھی جائزہ لیا تھا۔

10 نومبر 2016 کو ملزم خالد شمیم نے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کو سالگرہ پر تحفہ دینے کے لیے 16 ستمبر کو عمران فاروق کو قتل کرنے کی تاریخ مقرر کی تھی۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں لندن پولیس اب تک 7697 سے زائد دستاویزات کی چھان بین اور 4556 افراد سے پوچھ گچھ کر چکی ہے جبکہ 4323 اشیاء قبضے میں لی گئیں۔

لندن پولیس نے قاتلوں تک رسائی کے لیے عوام سے مدد کی اپیل کی جبکہ قاتل تک پہنچنے والی معلومات فراہم کرنے پر 20 ہزار پاؤنڈ انعام کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں