ریلوے حکام کو اقلیتوں کیلئے مخصوص نشستوں کی معلومات فراہم کرنے کی ہدایت

اپ ڈیٹ 10 دسمبر 2019
متعلقہ افسر سماعت میں پیش نہیں ہوئے جس کے بعد ایک مرتبہ پھر انہیں نوٹس جاری کیا گیا—فائل فوٹو: اے ایف پی
متعلقہ افسر سماعت میں پیش نہیں ہوئے جس کے بعد ایک مرتبہ پھر انہیں نوٹس جاری کیا گیا—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: پاکستان انفارمیشن کمیشن نے پاکستان ریلوے کو اقلیتوں کے کوٹے سے متعلق 10 دن کے اندر تحریری طور پر معلومات فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پاکستان ریلوے کی جانب سے معلومات تک رسائی کے حق ایکٹ 2017 کی خلاف ورزی اور کمیشن کے بیان سے متعلق کیس کی سماعت کے بعد مذکورہ ہدایت جاری ہوئی۔

مزیدپڑھیں: پنجاب میں معلومات تک رسائی کے ایکٹ کے نفاذ کا اعلان

کمیشن کے بیان میں کہا گیا کہ معلومات تک رسائی کے قانون میں کوئی ایسی شق موجود نہیں جو پبلک انفارمیشن آفیسر کو اجازت دیتی ہو کہ وہ درخواست گزار کو معلومات جمع کرنے کے لیے شخصی طور پر حاضر ہونے کی ہدایت دے۔

اس حوالے سے ڈان کے پاس دستیاب حکم کے مطابق بشارت مسیح نامی ایک شہری نے رواں سال 20 اپریل کو انفارمیشن کمیشن کے پاس اپیل دائر کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ جنوری میں انہوں نے اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کیلئے دیے گئے اشتہار میں کُل نشستوں کے بارے میں پاکستان ریلوے سے معلومات طلب کی تھیں۔

بشارت مسیح نے خاص طور پر مئی 2009 میں بی پی ایس 8 اور اس سے اوپر کے درجات میں کوٹے کا نوٹیفکیشن جاری ہونے سے متعلق معلومات بھی طلب کی تھیں۔

علاوہ ازیں مذکورہ شخص نے موصول ہونے والی کُل درخواستوں کی تعداد اور کوٹے کے نوٹیفیکیشن کے تحت ملازمت پر رکھے جانے والے اقلیتی امیدواروں کی کُل تعداد کے بارے میں بھی جاننے کی کوشش کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ’وفاقی وزارتیں آر ٹی آئی قانون کے تحت معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہیں‘

تاہم پاکستان ریلوے کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملنے پر بشارت مسیح نے پاکستان انفارمیشن کمیشن سے رجوع کیا جس نے ریلوے کو دو بار نوٹس جاری کیا۔

تاہم متعلقہ افسر سماعت میں پیش نہیں ہوئے جس کے بعد ایک مرتبہ پھر انہیں نوٹس جاری کیا گیا۔

بعد ازاں یکم نومبر کو پاکستان ریلوے کے چیف پرسنل آفیسر کے اسسٹنٹ پرفارمنس آفیسر ظہور احمد بٹ نے بشارت مسیح کو لاہور میں واقع پاکستان ریلوے ہیڈ کوارٹرز کے چیف آفیسر آفس کے دفتر آکر مطلوبہ معلومات حاصل کرنے کا کہا۔

اس حوالے سے وفاقی انفارمیشن کمشنر زاہد عبد اللہ نے بتایا کہ 'ایکٹ میں کسی بھی جگہ یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ ادارہ شکایات کنندہ کو اپنے کام کے مقامات پر ڈیٹا فراہم کرنے کے لیے بلا سکتا ہے، ایسا کرنے سے شکایت کنندہ کو دباؤ میں ڈالنا مقصود ہوسکتا ہے'۔

ڈان سے اس معاملے کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'شکایت کنندہ کا تعلق دور دراز کے علاقوں سے ہوسکتا ہے اور یہی ایک اور وجہ ہے کہ ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے ان سے مطالبہ نہیں کیا جانا چاہیے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'ہم نے پاکستان ریلوے سے 10 دن کے اندر تحریری طور پر معلومات فراہم کرنے کی اپیل کی ہے'۔

مزیدپڑھیں: کیا آپ جانتے ہیں معلومات تک رسائی آپ کا حق ہے؟

مزید برآں انہوں نے کہا جواب دہندہ (پاکستان ریلوے) کو بھی کہا ہے کہ وہ معلومات تک رسائی کے حق ایکٹ 2017 کے سیکشن 5 میں مذکور تمام قسم کی معلومات کو فوری طور پر اس کی ویب سائٹ پر شیئر کریں اور ان کی تعمیلی رپورٹ بھی 6 جنوری 2020 تک انفارمیشن کمیشن کو پیش کریں۔

زاہد عبداللہ نے بتایا کہ 'اگر ان احکامات پر عمل درآمد نہ ہوا تو توہین کے نوٹسز جاری کیے جائیں گے کیونکہ وہ احکامات پر عمل کرنے کا پابند ہے یا وہ ہائی کورٹ میں فیصلوں کے خلاف اپیل دائر کرسکتا ہے'۔

واضح رہے کہ رسائی کے حق تک پہنچنے کا قانون اکتوبر 2017 میں نافذ کیا گیا تھا جس کے تحت اپریل 2018 تک تمام عوامی اداروں کو اپنی معلومات کو عملی طور پر ظاہر کرنا تھا۔

تاہم بیشتر سرکاری اداروں کی ویب سائٹ موجود نہیں اور اگر کسی کی موجود ہے تو اس پر فراہم کردہ معلومات بہت محدود ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں