قائمہ کمیٹی کی انسداد دہشتگردی ایکٹ میں مالی جرائم شامل کرنے کی مخالفت

اپ ڈیٹ 13 دسمبر 2019
وزارت قانون کے ایف اے ٹی ایف سیل کے عہدیداران  نے ترامیم کی وضاحت دی — فائل فوٹو: اے پی پی
وزارت قانون کے ایف اے ٹی ایف سیل کے عہدیداران نے ترامیم کی وضاحت دی — فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) میں مالیاتی جرائم اور غیرقانونی رقم کی منتقلی کو شامل کرنے کے حکومتی اقدام کی مخالفت کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قانون سازوں کا کہنا ہے کہ نئے قانون کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں مذکورہ ترمیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی کچھ شرائط کو آسان بنانے کے لیے کی گئی ہے تاکہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے مشتبہ ملزمان کا ٹرائل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں کیا جاسکے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں پریزینٹیشن دیتے ہوئے وزارت داخلہ کے عہدیدار نے نشاندہی کی کہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط کی روشنی میں ایسی ترامیم ضروری ہیں جنہیں پہلے انسداد منی لانڈرنگ کے قوانین میں شامل کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاکستان فروری 2020 تک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہی رہے گا

ترامیم کے مطابق اے ٹی اے میں ’ ایجنٹ، معاشی دہشت گردی‘ اور مالی جرائم میں ملوث افراد کی انکوائری کے لیے گرفتاری سے متعلق دفعہ موجود نہیں ہے۔

اس حوالے سے قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ تجویز کردہ ترامیم سے حوالہ اور ہنڈی سمیت غیرقانونی ذرائع سے رقم یا فنڈز کی منتقلی کے کیسز میں اے ٹی اے 1997 پر عملدرآمد میں مزید اضافہ ہوگا۔

علاوہ ازیں انسداد دہشت گردی ایکٹ میں نیا سیکشن 9 (اے) شامل کیا گیا ہے جو وفاقی یا صوبائی حکام کی جانب سے کسی مشتبہ شخص کو انکوائری کے لیے حراست میں لینے کے ساتھ ساتھ متاثرہ افراد کے حراستی احکامات کے خلاف درخواستوں کا جائزہ لینے سے متعلق ہے۔

وزارت قانون کے ایف اے ٹی ایف سیل کے عہدیداران نے ترامیم کی وضاحت دی اور قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ’ معاشی دہشت گردی ‘ کا مطلب پاکستان سے کسی غیررسمی چینل کے ذریعے بیرون ملک رقم یا فنڈز کی منتقلی ہے اور اس میں ہنڈی یا حوالہ بھی شامل ہے جس میں کسی ایک ایجنٹ کی جانب سے ایک ماہ میں ایک یا متعددد ٹرانزیکشنز کے ذریعے منتقل کی گئی مجموعی رقم 5 کروڑ روپے کے برابر یا اس سے زیادہ ہو۔

عہدیدارن نے وضاحت دی کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی ترامیم میں سیکشن 9 اے بھی شامل ہے جس کے مطابق’ کوئی شخص جس کے خلاف جرم سے جڑے ہونے کے قابلِ وجوہ حقائق موجو ہوں، اس ایکٹ کے تحت اسے 3 ماہ کی مدت کے لیے انکوائری کے لیے حراست میں لیا جاسکتا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: یورپی یونین کی ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے تکنیکی معاونت کی پیشکش

تاہم پہلا اعتراض پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل نے اٹھایا تھا جن کے بعد پاکستان مسلم لیگ(ن) کے محمد پرویز ملک نے اعتراض کیا اور کہا کہ ترامیم کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

عہدیداران نے درخواست کی کہ ترامیم کو منظور ہوسکتی ہیں کیونکہ وہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط ہیں جس پر قائمہ کمیٹی کے چیئرمین اور پاکستان تحریک انصاف کے راجا خرم شہزاد نے بل موخر کرتے ہوئے وزارت داخلہ کو انسداد دہشت گردی ایکٹ سے متعلق ترامیم کو ضم کرنے کی ہدایت کردی۔

قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے غیر رجسٹرد افراد کی جانب سے سود پر مبنی قرض کے خاتمے سے متعلق ثنااللہ خان مستی خیل کی جانب سے نجی بل منظور کیا، بل کا دائرہ اختیار صرف ضلع اسلام آباد تک محدود ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں