نواز شریف کی صحت کیلئے پلیٹلیٹس کا بہتر ہوناضروری ہے، حسین نواز

اپ ڈیٹ 15 دسمبر 2019
حسین نواز نے کہا ہے کہ نوازشریف کو امریکا منتقل کرنے کے لیے پلیٹ لیٹس بہتر ہونی چاہئیں—فوٹو:ڈان نیوز
حسین نواز نے کہا ہے کہ نوازشریف کو امریکا منتقل کرنے کے لیے پلیٹ لیٹس بہتر ہونی چاہئیں—فوٹو:ڈان نیوز

سابق وزیرعظم نواز شریف کی صحت کے حوالے سے ان کے صاحبزادے حسین نواز نے کہا ہے کہ اس وقت پلیٹلیٹس کا بہتر ہونا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر ڈاکٹر کوئی پروسیجر نہیں کرسکتے۔

لندن میں ڈان نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حسین نواز نے کہا کہ ‘میاں صاحب کی صحت کے حوالے سے اس وقت سب اہم چیز پلیٹلیٹس کی بہتری ہے کیونکہ جب تک پلیٹلیٹس بہتر نہیں ہوپائیں گی اس وقت تک ڈاکٹر مزید کوئی پروسیجر نہیں کریں گے’۔

امریکا میں علاج کے لیے منتقل کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ‘انہیں دل کی شریانیں جو دماغ کے لیے خون فراہم کرتی ہیں، کے علاج کے لیے امریکا لے کر جانا ہوگا لیکن اس کے لیے پلیٹلیٹس بہتر ہونی چاہئیں’۔

مزید پڑھیں:نواز شریف کو علاج کیلئے 16 دسمبر کو امریکا منتقل کیے جانے کا امکان

زہر خورانی کے خدشات پر ان کا کہنا تھا کہ ‘اس حوالے سے بات ہوچکی ہے لیکن میں نے کسی پر نہ تو الزام لگایا تھا اور نہ کسی پر الزام لگا رہا ہوں جس مسئلے تھرموسائٹوپینیا کا اب تک پتہ نہیں لگایا جاسکا اس کی وجوہات میں سے ایک یہ چیز بھی ہے’۔

حسین نواز نے کہا کہ ‘ڈاکٹروں نے یہی کہا ہے جس طرح وہ دیگر وجوہات کو ختم کررہے ہیں اسی طرح اس کا بھی پتہ لگائیں گے’۔

قبل ازیں امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ نواز شریف کو علاج کے لیے 16 دسمبر کو امریکا منتقل کیا جائے گا۔

ڈان کی رپورٹ کے مطابق خاندانی ذرائع کا کہنا تھا کہ انہیں بلڈ پلیٹلیٹس کی کمی کے باعث قوت مدافعت کی خرابی کا مرض لاحق ہے، جس کا علاج لندن میں بھی موجود نہیں لہٰذا سابق وزیراعظم کو امریکا منتقل کیا جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لندن میں کیے گئے نواز شریف کے میڈیکل ٹیسٹس میں یہ بات سامنے آئی کہ پلیٹلیٹس کی کمی کے باعث ان کے دماغ کو خون کی فراہمی میں کچھ رکاوٹ ہے، جس کے لیے آپریشن کیا جائے گا اور اس کا علاج صرف امریکا کے شہر بوسٹن میں ہوسکتا ہے۔

یاد رہے کہ سابق وزیراعظم گزشتہ ماہ اپنے بھائی شہباز شریف اور ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کے ہمراہ ایئر ایمبولینس میں علاج کے لندن پہنچے تھے۔

انہیں اکتوبر میں خرابی صحت کے باعث قومی احتساب بیورو (نیب) کے دفتر سے لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں ان کے پلیٹلیٹس میں مسلسل کمی کے باعث صحت پیچیدہ ہورہی تھی۔

ماہر امراض خون نے نواز شریف کو ایکیوٹ امیون تھرمبو سائیٹوپینیا (آئی ٹی پی) نامی بیماری لاحق ہونے کی تشخیص کی تھی جو خون کے خلیات میں خرابی کی علامت ہے۔

مزید پڑھیں: 'نواز شریف کو علاج کے لیے امریکا جانا چاہیے'

بعدازاں نواز شریف کے علاج کے لیے تشکیل دیے گئے میڈیکل بورڈ نے بتایا تھا کہ ان کے کچھ طبی ٹیسٹس اور علاج بیرونِ ملک میں ہی ممکن ہیں۔

جس پر العزیزیہ ریفرنس کیس میں قید کی سزا کاٹنے والے مسلم لیگ (ن) کے قائد نے بیرونِ ملک روانگی کی اجازت کے حصول کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

جہاں لاہور ہائی کورٹ نے پہلے ان کی چوہدری شوگر ملز کیس میں ضمانت منظور کی تھی، جس کے بعد اسلام آباد کورٹ نے ابتدائی طور پر العزیزیہ ریفرنس میں ان کو 3 دن کی ضمانت دی تھی، بعدازاں درخواست پر مزید سماعت کے بعد عدالت عالیہ نے ان کی سزا کو 8 ہفتوں کے لیے معطل کردیا تھا۔

8 نومبر کو شہباز شریف وزارت داخلہ کو نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دی تھی جس کے بعد حکومت نے نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دینے کا اعلان کیا جس کے تحت روانگی سے قبل انہیں 7 ارب روپے کے انڈیمنٹی بانڈز جمع کروانے تھے۔

تاہم انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے علاج کے بعد وطن واپسی کی ضمانت کے لیے 7 ارب روپے کے انڈیمیٹی بانڈز جمع کروانے کی شرط پر بیرونِ ملک جانے سے انکار کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: لندن: مرض کی تشخیص کیلئے نواز شریف کا پی ای ٹی اسکین

جس کے بعد ان کے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے عدالت میں تحریری طور پر اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ نواز شریف کی صحت یابی کے بعد ڈاکٹروں کی جانب سے سفر کی اجازت ملنے پر ان کی وطن واپسی یقینی بنائیں گے جس پر عدالت نے نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی تھی.

چنانچہ وزارت داخلہ سے 18 نومبر کو بیرون ملک سفر کے لیے گرین سگنل ملنے کے بعد 19 نومبر کو قائد مسلم لیگ (ن) خصوصی طور پر بلائی گئی ایئر ایمبولینس کے ذریعے علاج کے لیے لندن پہنچ گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں