بھارت: شہریت قانون کے خلاف جامعہ دہلی میں شدید احتجاج، 100 سے زائد زخمی

اپ ڈیٹ 17 دسمبر 2019
طلبہ نئے شہریت قانون کے خلاف سراپا احتجاج ہیں—فوٹو: رائٹرز
طلبہ نئے شہریت قانون کے خلاف سراپا احتجاج ہیں—فوٹو: رائٹرز

بھارت میں نئے شہریت قانون کے خلاف مظاہروں میں شدت آگئی ہے اور دارالحکومت نئی دہلی کی مرکزی جامعہ میں اس بل کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کے استعمال سے 100 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔

غیرملکی خبررساں اداروں نے رپورٹ کیا کہ پولیس حکام کا کہنا تھا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبہ سمیت ہزاروں افراد نے غیرمسلموں کو شہریت دینے کے نئے قانون کے خلاف احتجاج کیا۔

پولیس حکام کا کہنا تھا کہ اس قانون کے خلاف تیسرے روز ہونے والا پرامن مظاہرہ اتوار کی دوپہر میں افراتفری میں تبدیل ہوگیا اور 3 بسوں کو نذرآتش کردیا گیا۔

مظاہرے کے دوران بس کو بھی نذرآتش کردیا گیا—فوٹو: رائٹرز
مظاہرے کے دوران بس کو بھی نذرآتش کردیا گیا—فوٹو: رائٹرز

ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار چھنموئے بسوال کا کہنا تھا کہ جنوبی دہلی کے پوش علاقے میلی میں 6 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ تاہم منتظمین طلبہ کے مطابق تشدد باہر کے افراد کی جانب سے کیا گیا۔

مزید پڑھیں: بھارت میں متنازع شہریت بل کے خلاف احتجاج، ہلاکتوں کی تعداد 6 ہوگئی

اس حوالے سے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے پاس وقت ہے اور ہم نے یہ برقرار رکھا کہ ہمارے مظاہرے پرامن اور تشدد سے پاک ہیں'، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ہم 'اس نقطہ نظر کے ساتھ کھڑے ہیں اور کسی بھی پارٹی کے تشدد میں ملوث ہونے کی مذمت کرتے ہیں'۔

دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں عمارتوں پر 'سیکولر انڈیا' جیسے نعرے درج کیے گئے تھے جبکہ متعدد طلبہ نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو میں بتایا کہ پولیس کی جانب سے یونیورسٹی کی لائبریری میں آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے اور کیمپس کے تمام دروازوں کو سیل کرنے سے قبل مظاہرین پر تشدد بھی کیا۔

اس بارے میں ایک طالب علم طفیل احمد کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا گیا اور میں اپنی جان بچانے کے لیے کیمپس سے فرار ہوگیا۔

تمام واقعے سے متعلق شیئر کی گئی ویڈیوز میں یونیورسٹی کی لائبریری میں افراتفری کے مناظر کے ساتھ ساتھ پولیس کو آنسو گیس کے شیل فائر کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جبکہ طلبہ میز کے نیچے بیٹھے اور باتھ روم کے اندر بند ہوگئے۔

ادھر جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدیدار وسیم احمد خان کا کہنا تھا کہ پولیس زبردستی کیمپس میں داخل ہوئی، انہیں کوئی اجازت نہیں دی گئی تھی جبکہ ہمارے اسٹاف اور طلبہ کو مارا گیا اور انہیں کیمپس چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔

واقعے کے بارے میں ہسپتال کے ترجمان فادر جیورج کا کہنا تھا کہ ہولی فیملی ہسپتال سمیت قریبی ہسپتالوں میں متعدد زخمی طلبہ کو لایا گیا، جہاں 26 طلبہ کو طبی امداد دی گئی۔

قریبی الشفا ہسپتال میں طبی امداد حاصل کرنے والے ایک طالب علم مجیب رضا کا کہنا تھا کہ پولیس نے مجھے زمین پر گرا کر مارا جبکہ میرے دوستوں کو بھی نہیں بخشا۔

طلبہ نے گرفتاریوں کے خلاف پولیس ہیڈکوارٹرز کے باہر احتجاج کیا—فوٹو: رائٹرز
طلبہ نے گرفتاریوں کے خلاف پولیس ہیڈکوارٹرز کے باہر احتجاج کیا—فوٹو: رائٹرز

مقامی انتظامیہ نے جنوب مشرقی دہلی میں پیر کو تمام اسکول بند رکھنے کا اعلان کیا جبکہ جامعہ ملیہ یونیورسٹی پہلے ہی ہفتے کو کہہ چکی تھی کہ وہ موسم سرما کی تعطیلات کے لیے قبل از وقت بند رہے گی، اس کے علاوہ اترپردیش کی شمالی ریاست میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اعلان کیا کہ اتوار کو پولیس کے ساتھ طلبہ کے تصادم کے بعد وہ تعطیلات کا اعلان جلد کررہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں متنازع بل پر ہنگامے: امریکا، برطانیہ کا اپنے شہریوں کیلئے سفری انتباہ

علاوہ ازیں مبینہ طور پر پولیس کی جانب سے طلبہ پر تشدد اور انہیں حراست میں رکھنے کے خلاف نئی دہلی پولیس ہیڈکوارٹرز کے باہر سیکڑوں افراد نے احتجاج کیا۔

ادھر انڈیا ٹوڈے نے رپورٹ کیا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر ناظمہ اختر نے طلبہ کے لیے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ وہ طلبہ سے یکجہتی کا اظہار کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ جلد ہی اعلیٰ حکام کے ساتھ پولیس کی جانب سے زبردستی یونیورسٹی میں داخل ہونے کا معاملہ اٹھائیں گی۔

انڈیا ٹوڈے نے بتایا کہ پولیس کا کہنا تھا کہ اتوار کو حراست میں لیے گئے 50 طلبہ کو پیر کی صبح چھوڑ دیا گیا۔

یونیورسٹی میں پولیس کے لاٹھی چارج کے دوران طلبا کو تشدد سے بچانے کے لیے سامنے آنے والی طالبات میں سے چند نے صحافی برکھا دت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ہمیں تشدد کا کوئی خوف نہیں ہے، ہمیں اگر کسی چیز کا خوف ہے وہ شہریت کا متنازع قانون اور ہندوتوا کو فروغ دینے والی حکومت ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ ہمارے وجود کا معاملہ ہے، پہلے اس طرح کے معاملے کو کشمیر میں چھیڑا گیا اس وقت ہم خاموش رہے، پھر بابری مسجد کیس کا فیصلہ آیا جس کے بعد ہمارا عدلیہ پر سے اعتبار اٹھ گیا، اس قانون کے بعد ہمیں اندیشہ ہے کہ اب ان کا ہدف پورا ملک ہوگا۔'

خیال رہے کہ بھارت میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ شہریت کے متنازع بل کے خلاف شمال مشرقی ریاستوں میں ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے ہلاکتوں کی تعداد 6 ہوگئی ہے جبکہ انٹرنیٹ کی معطلی اور کرفیو بدستور نافذ ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق ریاست آسام کے سب سے بڑے شہر گوہاٹی میں شدید مظاہرے ہورہے ہیں جہاں سیکیورٹی کے معاملات فوج کے ہاتھ میں ہے جو مسلسل سڑکوں پر گشت کررہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق گوہاٹی میں اتوار کو بھی ہزاروں افراد نے احتجاج کیا اور آسام زندہ باد کے نعرے لگارہے تھے جبکہ سیکڑوں اہلکار بھی وہاں موجود تھے۔

مقامی انتظامی عہدیدار کا کہنا تھا کہ کرفیو کی وجہ سے ریاست میں تیل اور گیس کی پیدوار متاثر ہوئی ہے حالانکہ اتوار کو پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی اور چند دکانیں بھی کھل گئی تھیں۔

مزید پڑھیں: بھارت میں متنازع بل پر ہنگامے: امریکا، برطانیہ کا اپنے شہریوں کیلئے سفری انتباہ

ان کا کہنا تھا کہ آسام میں پولیس کی فائرنگ سے 4 افراد ہلاک ہوئے، ایک شہری نذر آتش کی گئی دکان میں سورہا تھا اور اسی دوران ہلاک ہوگیا جبکہ ایک شہری کی ہلاکت احتجاج کے دوران تشدد کے باعث ہوئی۔

افراتفری کے مناظر

علاوہ ازیں اسکرول ان نے رپورٹ کیا کہ واقعے کی ویڈیو میں ہال کے اندر افراتفری کے مناظر دیکھے گئے، اس دوران مختلف چیزوں کی آوازیں آرہی تھیں، طلبہ بھاگ رہے تھے اور ڈیسکس کو گھسیٹ رہے تھے۔

اس حوالے سے ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ جب پولیس نے کیمپس کی طرف پیش قدمی شروع کی تو مختلف طلبہ واپس ہاسٹل کی طرف آنا شروع ہوگئے تاہم 'کچھ طلبہ پولیس لاٹھی چارج کا شکار ہوئے'، جس میں سے کچھ زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن باقی ہاسٹل میں چھپے ہوئے تھے۔

اسکرول ان نے مزید رپورٹ کیا کہ طالب علموں کا کہنا تھا کہ پولیس انہیں مارتے وقت 'بے قابو' تھی، کچھ مقامات پر روشنی کو بند کردیا گیا تھا، یہاں تک کہ 'خالی عمارتوں میں بھی چھاپے مارے گئے جبکہ 'کچھ پولیس اہلکار باتھ روم میں داخل ہوئے اور طلبہ پر تشدد کیا'۔

مذکورہ واقعے کی ویڈیو میں دیکھا گیا کہ ایک طالب علم واش روم کے فلور پر بے ہوشی کی حالت میں پڑا ہوا ہے جبکہ دوسرا ایک کونے پر موجود ہے اور اس کا چہرا کپڑے سے چھپا ہوا ہے جس پر خود کے داغ موجود ہیں۔

یاد رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی حکومت نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں بھارتی شہریت کے حوالے سے متنازع بل منظور کیا تھا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل پڑوسی ممالک سے غیرقانونی طور پر بھارت آنے والے افراد کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمان اس کا حصہ نہیں ہوں گے۔

اس ترمیمی بل کے بعد بھارت میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور شمال مشرقی ریاستوں میں ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے 6 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ انٹرنیٹ کی معطلی اور کرفیو بدستور نافذ ہے۔

شہریت ترمیمی بل ہے کیا؟

شہریت بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔

اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016 کے تحت شہریت سے متعلق 1955 میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: متنازع شہریت ترمیمی بل کی منظوری، بنگلہ دیشی وزرا کا دورہ بھارت منسوخ

اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائےگی۔

اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔

خیال رہے کہ آسام میں غیر قانونی ہجرت ایک حساس موضوع ہے کیونکہ یہاں قبائلی اور دیگر برادریاں باہر سے آنے والوں کو قبول نہیں کرتیں اور مظاہرین کا ماننا ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد ریاست آسام میں مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں