کراچی : جعلی خبروں سے متعلق کام کرنے والے یورپی ادارے ‘ ای یو ڈس انفو لیب ‘ نے جعلی خبریں شائع کرنے والے 200 اداروں کی معاونت کرنے والی این جی اوز اور تھنک ٹینکس کے منظم بھارتی نیٹ ورک کو بے نقاب کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بھارت کا یہ منظم نیٹ ورک پاکستان سے متعلق تنقیدی مواد سے یورپی یونین اور اقوام متحدہ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

’ ای یو ڈس انفو لیب ‘، یورپی یونین، اس کی رکن ریاستوں، بنیادی اداروں اور بنیادوں اقدار کو نشانہ بنانے والے گمراہ کن مہمات پر تحقیق کرتا اور ان سے نمٹتا ہے۔

غیر سرکاری ادارے نے نومبر میں اپنی تحقیق کے ابتدائی نتائج میں بھارتی نیٹ ورک کی جانب سے منظم کردہ ’ جعلی‘ خبروں کے 265 اداروں کے نیٹ ورک کو بے نقاب کیا تھا جو پاکستان سے متعلق تنقیدی مواد سے اقوام متحدہ اور یورپی یونین پر اثر انداز ہونے کے لیے کام کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: سنگاپور نے جعلی خبروں کی اشاعت کو جرم قرار دے دیا

تحقیقات کے دوران ڈس انفو لیب کو معلوم ہوا کہ جعلی ویب سائٹس نے غیرمعمولی پریس ایجنسیوں سے لیا گیا پاکستان مخالف مواد کاپی پیسٹ کیا، سیاست دانوں اور مبہم تھنک ٹینکس کی جانب سے شیئر کیے گئے مواد کو بڑھاوا دیا جو بھارتی جغرافیائی مفادات کی حمایت کرتے ہیں۔

انہوں نے پاکستان مخالف مواد کو دیگر بھارتی نیٹ ورک پر دوبارہ شائع کیا جس میں جعلی ادارے جیسا کہ ای پی ٹوڈے، ٹائمز آگف جینیوا اور نیو دہلی ٹائمز وغیرہ شامل ہیں، اکثر ویب سائٹس ٹوئٹر پر بھی موجود تھیں۔

تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ ادارے بھارتی اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے منظم کیے گئے تھے جن کا تعلق سری واستو گروپ کے تھنک ٹینکس، این جی اوز اور کمپنیوں کے ایک بڑے نیٹ ورک سے ہے۔

’ جعلی این جی اوز‘ کے ساتھ آن لائن کوششیں

گزشتہ روز جاری کی گئی مکمل رپورٹ میں ای یو ڈس انفو لیب نے ’ جعلی ‘ این جی اوز اور یورپ میں پاکستان مخالف لابنگ پروگراموں کی ذمہ داروں تںظیموں سے وابستہ بھارتی نیٹ ورک کی آن لائن کوششوں کی تفصیل بھی بیان کی گئی۔

مذکورہ پروگراموں کو بھی ’ جعلی ‘ میڈیا اداروں کی جانب سے میڈیا کوریج دی جاتی تھی۔

رپورٹ میں یہ نشاندہی بھی کی گئی کہ کئی غیر واضح گروہ ہر سال اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس کے دووران پاکستان کے خلاف مظاہرے اور سوشل میڈیا مہمات چلاتے رہے ہیں۔

انہوں نے ہر موقع پر انسانی حقوق کونسل کی براہ راست نشریات کا ہیش ٹیگ استعمال کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق جینیوا میں پاکستان کے خلاف اقلیتوں سے سلوک کے موضوع پر چلائی جانے والی تمام مہمات کے پیچھے ای او پی ایم ( یورپی آرگنائزیشن فار پاکستانی مائنوریٹیز ) اور وی او پی ایم (وائس آف پاکستانی مائنوریٹیز) نامی تںنظیمیں تھیں۔

ان مہمات میں اٹھائے جانے والے مسائل کا مقصد ملک میں اقلیتوں کے حالات اور پریشان حال گروہوں سے متعلق پاکستان پر تنقید کرنا ہے۔

مارچ 2017 میں ای او پی ایم نے اونیکس میں پاکستان میں عیسائیوں کے خلاف ’مظالم‘ کی نشاندہی کے لیے روزہ تصویری نمائش کا انعقاد کیا تھا۔

بعدازاں 2017 میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 36ویں اجلاس کے دوران ملک میں خواتین کے حقوق سے متعلق PakistanStopGenocide# مہم کا آغاز کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جھوٹی خبروں کی روک تھام، بھارت کا واٹس ایپ سے اصلاحات کا مطالبہ

علاوہ ازیں ای او پی ایم نے اس مہم پر ایک اعلامیہ بھی جاری کیا تھا، اس میں کہا گیا تھا کہ ’ جینیوا میں انسانی حقوق کونسل کے 36 ویں اجلاس کے دوران یہ اقدام پاکستانی خواتین سے متعلق انسانی حقوق کی تنظیم اور یورپین آرگنائزیشن فار پاکستانی مائنوریٹیز کی جانب سے اٹھایا گیا تھا‘ ۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ ای او پی ایم نے اس مہم کے پوسٹرز ٹیکسی بائیکس پر آویزاں کیے ہیں۔

علاوہ ازیں اسی تنظیم نے 10 ستمبر 2019 کو جینیوا میں اقوام متحدہ کے باہر مہم کا انعقاد کیا اس دوران انسانی حقوق کونسل کا 42 واں اجلاس جاری تھا۔

یہ مہم بلوچستان سے متعلق تھی اور اس میں دیگر کیسز کی طرح اقوام متحدہ کے باہر بڑے حروف میں ہیش ٹیگز آویزاں کیے گئے تھے اور نیٹ ورک کے اراکین کی جانب سے تقاریر اور کانفرنسز کی گئیں تھیں۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ یورپی پارلیمنٹ کے کچھ اراکین مختلف چینلز کے ذریعے بھارتی نیٹ ورک کے ساتھ براہ راست مصروف عمل ہوگئے تھے جیساکہ ان کی میڈیا کوریج میں کردار ادا کرنا، کانفرنس میں شرکت کرنا اور ان کے کاز پر یورپی پارلیمنٹ کرنا شامل ہیں۔

رپورٹ میں نامزد ایک ایسی شخصیت مدی شرما جو اپنا نام مدھو شرما بھی لکھتی ہیں جو 2002 سے یورپین اکنامک اور سوشل کمیٹی (ای ای ایس سی) کی برطانوی رکن ہیں۔

انہوں نے ’یورپی یونین کی نامہ نگار‘ کے طور پر ای پی ٹوڈے اور دہلی ٹائمز میں بھی لکھا ہے اور انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے متنازع دورے کے لیے یورپی یونین کے اراکین پارلیمنٹ کے دعوت نامے بھی بھیجے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں