وزارت قانون کا جسٹس وقار سیٹھ کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کیلئے جائزے کا آغاز

اپ ڈیٹ 22 دسمبر 2019
17 دسمبر کو خصوصی عدالت نے 2 ایک کی اکثریت سے پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی— فائل فوٹو: ڈان نیوز
17 دسمبر کو خصوصی عدالت نے 2 ایک کی اکثریت سے پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی— فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: وزارت قانون و انصاف نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے تفصیلی فیصلے کا پیرا 66 لکھنے والے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے لیے جائزہ لینا شروع کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس وقار احمد سیٹھ خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ کی سربراہی کررہے تھے اور انہوں نے پرویز مشرف کو 5 الزامات پر انہیں علیحدہ علیحدہ سزائے موت دینے کا حکم دیا۔

رپورٹ میںوزارت کے ترجمان کے حوالے سے بتایا گیا کہ وزارت قانون اس وقت ریفرنس دائر کرنے سے متعلق تحقیقاتی کام کررہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل فار پاکستان انور منصور خان جو سرکاری دورے پر ترکی گئے تھے وہ گزشتہ روز واپس آئے اور وہ ریفرنس کی تیاری سے متعلق معلومات دیں گے۔

مزید پڑھیں: حکومت ملک کا استحکام متاثر نہیں ہونے دے گی، وزیراعظم

ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر ریفرنس کی تیاری کی نگرانی کررہے ہیں۔

خیال رہے کہ 17 دسمبر کو خصوصی عدالت نے مختصر فیصلے میں 2 ایک کی اکثریت سے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی تھی اور بعدازاں 19 دسمبر کو اس کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا۔

تفصیلی فیصلے میں جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی جبکہ جسٹس نذر اکبر نے انہیں بری کردیا تھا۔

تاہم اس تفصیلی فیصلے میں جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار احمد سیٹھ کی اس رائے سے اختلاف کیا تھا جس میں انہوں نے پیرا گراف 66 میں یہ لکھا تھا کہ ’اگر پرویز مشرف سزا سے پہلے فوت ہوجاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد میں ڈی چوک پر لایا جائے اور 3 دن کے لیے لٹکایا جائے'۔

اس پیرا پر جسٹس شاہد نے اختلاف کیا اور کہا تھا کہ یہ بنیادی قانون کے خلاف ہے اور مجرم کے لیے موت کی سزا کافی ہے۔

علاوہ ازیں تفصیلی فیصلے کے بعد پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک مختصر پریس کانفرنس بھی کی تھی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے تفصیلی فیصلے نے ہمارے خدشات کو درست ثابت کردیا۔

میجر جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اگر ہمیں خطرات کے بارے میں معلوم ہے تو ہمارے پاس اس کا ردعمل بھی موجود ہے، اگر ہم بیرونی حملوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں، اندرونی دہشت گردی کا مقابلہ کرسکتے ہیں تو جو ملک دشمن قوتوں کا موجودہ ڈیزائن چل رہا ہے، اسے سمجھ کر اس کا بھی مقابلہ کریں گے۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ 17 دسمبر کے مختصر فیصلے پر جن خدشات کا اظہار کیا گیا تھا وہ تفصیلی فیصلے میں صحیح ثابت ہوئے ہیں، یہ فیصلہ کسی بھی تہذیب اور اقدار سے بالاتر ہے اور چند لوگ آپس میں لڑوانا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ تہذیب اور اقدار سے بالاتر ہے'

میجر جنرل آصف غفور نے کہا تھا کہ افواج پاکستان صرف ایک ادارہ نہیں ہے بلکہ ایک خاندان ہے ہم عوام کی افواج ہیں اور جذبہ ایمانی کے بعد عوام کی حمایت سے مضبوط ہیں، ہم ملک کا دفاع بھی جانتے ہیں اور ادارے کی عزت اور وقار کا دفاع بھی بہت اچھے طریقے سے جانتے ہیں۔

سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری ہونے کے بعد حکومت کی قانونی ٹیم نے سپریم کورٹ میں فیصلہ چیلنج کرنے کے علاوہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو کے بعد وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف کی اسٹریٹیجک کمیٹی کے اجلاس کے دوران حکومت نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے اور فیصلے کےخلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

بعدازاں مشترکہ پریس کانفرنس میں وزیر قانون فروغ نسیم، وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے مذکورہ فیصلے کا اعلان کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں