اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نارووال اسپورٹس سٹی منصوبے میں مبینہ بدعنوانیوں کے معاملے میں گرفتار مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کو 6 جنوری تک 13 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا گیا۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی عدالت میں نارووال اسپورٹس کمپلیکس کیس کی سماعت ہوئی، جہاں گزشتہ روز گرفتار کیے گئے احسن اقبال کو پیش کیا گیا۔

اس موقع پر مریم اورنگزیب، راجا ظفر الحق و دیگر لیگی قیادت احتساب عدالت پہنچی تھی۔

عدالت میں سماعت کے دوران نیب کی جانب سے پراسیکیوٹر سہیل عارف اور مرزا عثمان پیش ہوئے۔

مزید پڑھیں: احسن اقبال کو چُپ رہنے اور پیچھے ہٹنے کے پیغامات دیے جاتے رہے، مریم اورنگزیب

دوران سماعت جج کے سامنے انہوں نے موقف اپنایا کہ ملزم کے وارنٹ گرفتاری جاری کر کے کل گرفتار کیا گیا،1999 میں احسن اقبال نے اسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر میں کرپشن کی۔

اسی دوران نیب نے احسن اقبال کے 14 روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی اور کہا کہ ملزم سے مزید تفتیش کے لیے ریمانڈ چاہیے۔

نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ملزم سے دستاویزات کی برآمدگی کے لیے بھی ریمانڈ درکار ہے، اس پر عدالت میں احسن اقبال کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل طارق محمود جہانگیری نے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کی۔

وکیل نے کہا کہ ان کے موکل احسن اقبال نے منصوبے کے لیے کوئی رقم منظور نہیں کی، اگر نیب کے پاس احسن اقبال کے خلاف کوئی ایک بھی دستاویز ہے تو 90 دن کا ریمانڈ دے دیں۔

طارق جہانگیری نے کہا کہ احسن اقبال پر رشوت لینے کا کوئی الزام نہیں، یہ کوئی قتل کا کیس ہے جو نیب نے ریمانڈ لینا ہے، اس کیس میں نیب نے کیا برآمد کرنا ہے جو ریمانڈ مانگ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام دستاویزات وفاقی حکومت کے پاس موجود ہیں، جسمانی ریمانڈ منطور نہ کیا جائے۔

اس موقع پر احسن اقبال بھی اپنے دفاع میں بولے اور کہا کہ گزشتہ برس مجھے گولی لگی تھی، نیب سے کہا کہ ڈاکٹروں کے پاس سے ہوکر آؤں گا، مجھے جمعے کو بلا لیں میں پیش ہو جاؤں گا۔

احسن اقبال نے کہا کہ میں نے طبی بنیاد پر کوئی رعایت نہیں لی، جب بھی بلایا گیا میں پیش ہو گیا ڈاکٹروں کے پاس جانا تھا لیکن میں نہیں گیا اور نیب میں پیش ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیں: نارووال اسپورٹس سٹی کیس: مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال گرفتار

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ نیب نے پیش ہونے پر ہی مجھے گرفتار کر لیا۔

احسن اقبال نے عدالت کو بتایا کہ یکم جنوری کو سروسز ہسپتال لاہور میں ڈاکٹروں سے چیک اپ کروانا ہے، یہ وہی ڈاکٹرز ہیں جنہوں نے میری اصل میں سرجری کی ہے، امید ہے آپ میرٹ پر فیصلہ کرینگے اور مجھے رہا کر دینگے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے عدالت میں کہا کہ اپنی ذرا سمجھ کے لیے نیب سے پوچھنا چاہوں گا کہ بیس ماہ سے انکوائری کر رہے ہیں، کن الزامات پر گرفتار کیا کوئی کک بیکس کمیشن، مالی بے ضابطگیوں کا الزام ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ نیب سے کہنا چاہیں گے کہ 1993 میں وہ رکن قومی اسمبلی بنے، میرے پاس 1993 میں جتنے اثاثے تھے 2019 میں کم ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کی کردارکشی اور شہرت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، نیب جو اچھا کام کر رہا ہے سیاسی کیسوں سے اچھے کام بھی دھندلانے لگے ہیں۔

نارووال منصوبے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ڈھائی ارب روپے کا منصوبہ تھا جو 2009 میں شروع ہوا، اس وقت وہ اپوزیشن میں تھے لیکن 2013 میں انتخابات کے دوران اس کھنڈر کو مکمل کرنے کا عوام سے وعدہ کیا تھا۔

احسن اقبال کے مطابق رولز آف بزنس اجازت دیتے ہیں کہ وزارت منصوبہ بندی کسی بھی علاقے میں منصوبہ بنا سکتی ہے، لواری ٹنل، اسلام آباد ایئرپورٹ سمیت کئی منصوبے مکمل کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ فنڈنگ کی رقم پی ایس ڈی پی سے ملتی ہے اس میں سارے وزیر شامل ہوتے ہیں۔

عدالت میں بیان میں کہا گیا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ ملک میں نامکمل منصوبوں کو مکمل کیا جائے گا اور اسی وعدے کو پورا کیا اور علاقے کے لوگوں نے 2018 کے الیکشن میں سب سے زیادہ ووٹ دیے۔

سماعت کے دوران عدالت میں احسن اقبال نے دعویٰ کیا کہ 'کرتارپور راہداری منصوبے کا بھی پی سی ون تیار نہیں ہوا، کرتارپور راہداری کے پیچھے چھڑی ہے اور وہاں پر ان کے پر جلتے ہیں'۔

اسی دوران عدالت میں جج نے احسن اقبال کو مزید بولنے سے روک دیا۔

بعد ازاں نیب پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل جاری رکھے اور بتایا کہ کک بیکس نہ بھی ہوں لیکن اختیارات کا ناجائز استعمال کیا گیا، جس پر وکیل احسن اقبال نے کہا کہ ان کے موکل کا آپریشن ہوا ہے، لہٰذا گھر سے کھانے اور واک کی اجازت دی جائے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ احسن اقبال سی پیک پر کتاب لکھ رہے ہیں لیپ ٹاپ کی اجازت بھی دی جائے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے ملاقات کرنے والوں میں مریم اورنگزیب کا نام بھی لکھا جائے۔

بعد ازاں عدالت نے احسن اقبال کے جسمانی ریمانڈ کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کیا جسے کچھ دیر بعد سناتے ہوئے عدالت نے 6 جنوری تک ان کو ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا۔

نواز شریف سے وفاداری پر گرفتار کیا گیا تو سزا قبول ہے، احسن اقبال

قبل ازیں احتساب عدالت آمد کے موقع پر میڈیا سے غیررسمی گفتگو میں احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اگر مجھے اس لیے گرفتار کیا گیا کہ میں نے نارووال کے عوام سے کیا گیا وعدہ پوا کیا اور نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ وفادار ہوں تو مجھے یہ سزا قبول ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر اس لیے گرفتار کیا گیا کہ عمران احمد خان نیازی کی ناکام حکومت کے خلاف میں بولنے سے چپ ہوجاؤں تو یہ سزا قبول نہیں، ہم اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے یہ لوگ اوچھے ہتھکنڈوں سے کامیاب نہیں ہوسکتے۔

مزید پڑھیں: 'احسن اقبال ڈٹے رہنے کا نتیجہ بھگت رہے ہیں'

انہوں نے کہا کہ یہ جو مقدمہ بنایا گیا وہ ڈھائی ارب روپے کا ہے جس میں 6 ارب روپے کی کرپشن کا کہا گیا لیکن ڈھائی ارب کے منصوبے میں 6 ارب روپے کی کرپشن کیسے ہوسکتی ہے۔

احسن اقبال کی گرفتاری

خیال رہے کہ قومی احتساب بیورو نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کو نارووال کے اسپورٹس سٹی منصوبے میں مبینہ بدعنوانیوں سے متعلق کیس میں گرفتار کرلیا تھا۔

نیب کے اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ نیب راولپنڈی نے نارووال اسپورٹس سٹی کمپلیکس اسکینڈل میں رکن قومی اسمبلی احسن اقبال کو گرفتار کیا گیا۔

واضح رہے کہ احسن اقبال پر نارووال اسپورٹ سٹی منصوبے کے لیے وفاقی حکومت اور پاکستان اسپورٹس بورڈ (پی ایس بی) کے فنڈز استعمال کرنے کا الزام ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں