پاکستان نے مذہبی آزادی سے متعلق امریکی الزامات مسترد کر دیے

اپ ڈیٹ 25 دسمبر 2019
امریکی صدر ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں باہمی تعاون پر زور دیا تھا—فائل/فوٹو:اے ایف پی
امریکی صدر ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں باہمی تعاون پر زور دیا تھا—فائل/فوٹو:اے ایف پی

دفتر خارجہ نے امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے پاکستان کو مذہبی آزادی کے حوالے سے واچ لسٹ پر رکھنے کو مسترد کرتے ہوئے اپنے سخت ردعمل میں کہا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک ہو رہا ہے لیکن اس کو نظر انداز کردیا گیا۔

ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے 20 دسمبر 2019 کو مذہبی آزادی کے حوالے سے جاری رپورٹ کو پاکستان مسترد کرتا ہے’۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ ‘یہ اعلان نہ صرف پاکستان کی اصل صورت حال سے ناواقفیت ہے بلکہ اس پورے عمل کی شفافیت اور اعتبار پر سوالات کھڑے ہوگئے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘یہ فہرست مخصوص ممالک کو نشانہ بنانے کی عکاس ہے اور یہ مذہبی آزادی کے مقصد کے خلاف مددگار ہوگی’۔

خیال رہے کہ امریکا نے 20 دسمبر کو جاری اس فہرست میں پاکستان کے علاوہ میانمار، چین، اریٹیریا، شمالی کوریا، سعودی عرب، تاجکستان اور ترکمانستان کو خصوصی تشویش والے ممالک (سی پی سی) کی فہرست میں دوبارہ شامل کیا تھا۔

مزید پڑھیں:امریکا کی مذہبی آزادی کی واچ لسٹ میں پاکستان کا نام برقرار

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، بین الاقوامی مذہبی آزادی کے قانون 1998 کے مطابق اس فہرست میں نام شامل کرتا ہے اور سی پی سی کی فہرست میں شامل ممالک پر الزام ہے کہ یہ باقاعدہ منظم طریقے سے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

اس فہرست میں شامل ممالک کو امریکا کی جانب سے معاشی پابندیوں سمیت مزید کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ترجمان دفترخارجہ نے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی فہرست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ‘پاکستان ایک کثیرالمذہبی ملک ہے جہاں ہر عقیدے کے لوگوں کو آئین کے تحفظ کے تحت مذہبی آزادی حاصل ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ریاست کے تمام ستون انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ نے عقیدے، فرقہ، ذات یا نسل سے بالاتر ہوکر پاکستان کے تمام شہریوں کے تحفظ کی کوششیں کی ہیں تاکہ وہ مکمل آزادی کے ساتھ اپنی عبادت کرسکیں’۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت اور تقدس کے حوالے سے تاریخی فیصلے سنائے ہیں اور پاکستان مذہبی آزادی کے معاملات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری سے بھی رابطے میں ہے’۔

ترجمان دفترخارجہ کا کہنا تھا کہ ‘رواں برس کے آغاز میں امریکا کے عالمی مذہبی آزادی کے سفیر سینیٹر سیموئیل براؤن بیک کو پاکستان میں عالمی سطح پر مذہبی آزادی سے متعلق مذاکرے پر خوش آمدید کہا گیا تھا’۔

امریکا کے حالیہ اعلان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘یہ افسوس کی بات ہے کہ اس طرح کی تعمیری بات کو نظر انداز کیا گیا’۔

'بھارت کی عدم شمولیت جانب داری ہے'

ترجمان دفترخارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ‘بھارت کا اس فہرست سے اخراج اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب داری اور فہرست کی معروضیت کو مزید واضح کر رہا ہے کیونکہ بھارت مذہبی آزادی کا سب سے بڑا خلاف ورزی کرنے والا ملک ہے’۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا نے پاکستان کا نام ’خصوصی واچ لسٹ‘ میں ڈال دیا

انہوں نے کہا کہ ‘بھارت کے کشمیریوں کے ساتھ رویے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں طویل جبر اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی پر امریکا کی کانگریس نے دو سماعتیں کی ہیں اور 70 امریکی قانون سازوں نے کھلے عام گہری تشویش کا اظہار کیا تھا’۔

بھارت میں اقلیتوں پر جاری ظلم و ستم پر انہوں نے مزید کہا کہ ‘جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر، نیویارک میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور کئی یورپی ممالک کی پارلیمنٹ نے بھی اسی طرح گہرے تشویش کا اظہار کرچکی ہیں’۔

عائشہ فاروقی نے کہا کہ ‘آج بھارت میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو استثنیٰ کے ساتھ ہجوم میں تشدد سے ہلاک اور قتل کیا جارہا ہے، انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے’۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ ‘نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) اور حال ہی میں منظور کیا گیا شہریت ترمیمی بل (سی اے اے) بھارتی حکومت کا عوام سے امتیازی سلوک اور معاشرے کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کی جانب راستہ ہموار کرنے کی تازہ مثالیں ہیں’۔

دفترخارجہ کی ترجمان نے کہا کہ ‘مذہبی آزادی سے متعلق چیلنج عالمی مسئلہ ہے اور صرف تعاون ہی اس مسئلے کے خاتمے کا باعث ہوسکتا ہے، پاکستان اس کا حصہ ہوتے ہوئے امریکا سمیت مغربی ممالک میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے’۔

تبصرے (0) بند ہیں