’کسی مسلمان کو بھارت سے نکالا تو سینے پہ گولی کھاؤں گا‘

اپ ڈیٹ 26 دسمبر 2019
بھارتی گلوکار و موسیقار رفتار  کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی— فوٹو: ٹوئٹر
بھارتی گلوکار و موسیقار رفتار کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی— فوٹو: ٹوئٹر

نامور بولی وڈ ریپر اور کمپوزر رفتار نے ایک ویڈیو میں مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بھارت میں متنازع شہریت کے قانون کی مخالفت کی اور کہا کہ مسلمان، ہندو، عیسائی سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔

رفتار اپنی ٹیم کے ہمراہ ایک کنسرٹ میں پرفارم کررہے تھے جہاں اپنی پرفارمنس کے آغاز سے قبل انہوں نے بھارتی حکومت کی جانب سے منظور کیے گئے ’متنازع شہریت‘ کے قانون کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

اس واقعے کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہورہی ہے جبکہ رفتار کو ان کے اس بیان پر سراہا بھی جارہا ہے۔

اس ویڈیو میں رفتار کا کہنا تھا کہ 'ایک بات بالکل صاف بتا رہا ہوں، چاہے کل کیریئر چلے یا نہ چلے، کوئی مسئلہ نہیں، اتنا کمالیا ہے کہ آخر تک بھوکا نہیں مروں گا'۔

گلوکار نے اس کے بعد شائقین کو ارشد نامی اپنے باڈی گاڑد سے متعارف کراتے ہوئے کہا کہ 'اس انسان کا نام ارشد ہے، یہ میرا ایسا خیال رکھتا ہے کہ کوئی مجھے دھکا بھی نہیں مار سکتا، اگر کوئی اس کو دیش (بھارت) سے نکالنے کی بات کرے گا تو سامنے گولی کھاؤں گا'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'چاہے ہندو ہو، چاہے سکھ ہو، چاہے عیسائی ہو یا پھر مسلمان، سب ہمارے بھائی ہیں، کسی کو بھی باہر نہیں جانے دوں گا اور اس کے بعد جو میرے کیریئر کا ہوگا وہ تم خود دیکھ لینا، مجھے کوئی پروا نہیں'۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر صارفین کی جانب سے بھارتی موسیقار کے اس بیان کو خوب سراہا جارہا ہے۔

کسی نے اس بہادری پر انہیں 'شیر' کہا۔

جبکہ کچھ نے ایسے پلیٹ فارم پر گالی استعمال کرنے پر انہیں تنقید کا بھی نشانہ بنایا۔

دوسری جانب رفتار نے خود بھی ایک ٹوئٹ کے ذریعے اسٹیج پر گالی دینے پر معافی مانگی۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ 'اس سے قبل سب یہ جھگڑا شروع کردیں کہ کون میری بات سے متفق ہے اور کون نہیں، میں سب سے اسٹیج پر گالی دینے پر معافی مانگتا ہوں، مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، گالی دینے اور لڑکی کی عزت کرنے میں فرق ہے، غلط تو تب بھی ہے اس کے لیے معافی مانگتا ہوں'۔

یاد رہے کہ بھارتی حکومت نے رواں ماہ 12دسمر کو ’متنازع شہریت بل‘ کو اسمبلی سے منظور کروایا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی جبکہ اس فہرست میں مسلمان شہریوں کو شامل نہیں کیا گیا۔

اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔ اس قانون کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائےگی۔

بل کے قانون بن جانے کے بعد اس کے خلاف نئی دہلی سمیت بھارت کے دیگر کئی شہروں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوگئے ہیں جن کا تاحال سلسلہ جاری ہے، احتجاج اور مظاہروں کے دوران اب تک درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ مختلف ریاستوں میں احتجاج پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

مظاہروں کے دوران جلاؤ گھیراؤ کی وجہ سے جامعہ ملیہ سمیت دیگر اداروں کی املاک کو بھی نقصان پہنچا۔

مزید پڑھیں: ’متنازع شہریت قانون‘ پر بولی وڈ شخصیات بول پڑیں

رفتار کے علاوہ متنازع شہریت قانون کے خلاف آواز بلند کرنے والی شوبز شخصیات میں دیا مرزا، فرحان اختر اور سوناکشی سنہا بھی شامل ہیں۔

جبکہ بل کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شرکت کے بعد ہی بھارتی اداکار سوشانت سنگھ کو ان کے ٹی وی شو ’ساودھان انڈیا‘ سے بھی باہر کیا گیا تھا اور دیگر اداکاروں و فلم سازوں کو بھی متنازع شہریت قانون پر بات کرنے کے خلاف بھی ہندو انتہا پسندوں نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

مسلمان اداکار جاوید جعفری کی بھی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ مودی سرکار پر سخت تنقید کرنے سمیت ’متنازع شہریت بل‘ کے قانون کو غیر قانونی قرار دیتے دکھائی دیے تھے۔

بھارتی انتہاپسندوں کی جانب سے جاوید جعفری کو آن لائن تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے انہوں نے کچھ عرصے کے لیے سوشل میڈیا کو خیرباد کہنے کا اعلان بھی کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں