بینظیربھٹو قتل کیس: پیپلزپارٹی کا طالبان کے مطالبے پر تحفظات کا اظہار

اپ ڈیٹ 27 دسمبر 2019
بینظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 کو قتل کیا گیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی
بینظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 کو قتل کیا گیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: پاکستان پیپلزپارٹی ( پی پی پی) نے طالبان کی جانب سے امریکا سے مذاکرات کے دوران بینظیر بھٹو قتل کیس میں رہا ہونے والے 5 ملزمان میں سے 2 کی حوالگی کے مطالبے کی رپورٹس پر شدید تحفظات کا اظہار کردیا۔

خیال رہے کہ 2 برس قبل انسداد دہشت گردی عدالت ( اے ٹی سی ) نے بینظیر بھٹو قتل کیس میں 5 ملزمان کو بری کردیا تھا۔

تاہم ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملزمان دیگر کیسز میں ملوث ہونے کی وجہ سے تاحال جیل میں ہیں۔

علاوہ ازیں پیپلزپارٹی، اسلام آباد ہائی کورٹ میں 2017 میں دائر کی گئیں 3 درخواستوں پر سماعت کی بھی منتظر ہے، جن میں سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف، 2 سینئر پولیس افسران اور قتل کیس میں رہا ہونے والے 5 ملزمان کو سزائے موت دینے کی درخواست کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: بینظیر بھٹو قتل کیس: ٹی ٹی پی کے 5 ملزمان کی ضمانت منظور

پیپلزپارٹی کے رہنما لطیف کھوسہ جو بینظیر بھٹو قتل کیس کی پیروی کررہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس قابل اعتماد اطلاعات ہیں کہ 6 ماہ قبل طالبان نے پاکستان میں امریکا کے ساتھ مذاکرات کے دوران اعتزاز شاہ اور حسنین گل کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا جو دیگر کیس میں ملوث ہونے کی وجہ سے اب تک جیل میں ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ اعتزاز شاہ اور حسنین گل دونوں حملہ آوروں کے مبینہ سہولت کار تھے کیونکہ حملہ آور راولپنڈی میں واقع گھر میں موجود تھے اور انہوں نے حملے سے ایک روز قبل حملہ آوروں کے ساتھ حملے کے مقام کا دورہ کیا تھا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ طالبان نے اعتزاز شاہ اور حسنین گل کی رہائی اور حوالگی کے لیے تحریک انصاف کو کوئی تحریری درخواست جمع نہیں کروائی لیکن طالبان نے پاکستانی حکام سے ملاقات کے دوران اس خواہش کا اظہار کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے یہ معاملہ حکومت کے سامنے نہیں اٹھایا کیونکہ ہمیں علم ہوا کہ حکومت دونوں افراد کو طالبان کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے‘۔

پیپلزپارٹی کے رہنما نے کہا کہ بینظیر بھٹو قتل کیس میں ملزمان کی رہائی ان کے اور ان کی جماعت کے لیے بہت بڑا دھچکا تھی کیونکہ ملزمان نے عدالت میں اعتراف جرم کیا تھا اور ان کے گھر سے حملہ آوروں کے کپڑے، جوتے اور جسم کے حصے برآمد ہوئے تھے۔

لطیف کھوسہ نے کہا اپیلوں میں سے ایک انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے خلاف ہے جس میں پرویز مشرف کو کیس سے الگ کردیا تھا کیونکہ وہ ملک میں موجود نہیں تھے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جنرل (ر) پرویز مشرف دانستہ طور پر مفرور ہیں اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 19 کے مطابق اگر کوئی ملزم دانستہ طور پر عدالت کے سامنے پیش نہ ہورہا ہو تو پھر عدالت غیر حاضری میں کیس کا فیصلہ کرسکتی ہے‘۔

پیپلزپارٹی کے رہنما نے کہا کہ کیس میں 63 گواہان کے بیان لیے گئے اور غیرملکی صحافی مارک سیگل سے لگاتار 2 دن تک جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

ادھر پیپلزپارٹی کے ایک اور رہنما اور ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ’ اس حوالے سے غیرمصدقہ اطلاعات ہیں کہ طالبان نے پاکستان کے ذریعے امریکا سے ہونے والے مذاکرات میں اعتزاز شاہ اور حسنین گل کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا‘ ۔

یہ بھی پڑھیں: بینظیر بھٹو قتل کیس: پرویز مشرف کی تمام جائیداد ضبط کرنے کا حکم

انہوں نے کہا کہ ’ہم ان رپورٹس کی تصدیق کی کوشش کررہے ہیں اور اگر یہ رپورٹس سچ نکلیں تو اس سے کیس کے کچھ نامعلوم پہلوؤں کا انکشاف ہوگا‘۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اگر طالبان نے واقعی اعتزاز شاہ اور حسنین گل کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا تو اس سے بینظیر بھٹو کے قتل میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کی تصدیق ہوجائے گی۔

واضح رہے کہ 27 دسمبر 2007 کو سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو الیکشن مہم کے دوران اس وقت شہید کردیا کیا گیا تھا جب وہ لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کرکے واپس جارہی تھیں جہاں ان پر خودکش حملہ اور فائرنگ کردی گئی تھی۔

اُس وقت کے صدر مملکت پرویز مشرف نے ٹی ٹی پی کو مذکورہ حملے کا ذمہ دار قرار دیا تھا، جسے ٹی ٹی پی کی جانب سے مسترد کیا گیا۔

بعدازاں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اگست 2017 میں فیصلہ سناتے ہوئے ٹی ٹی پی کے 5 مشتبہ ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ 2 پولیس افسران کو بینظیر بھٹو کو فراہم کردہ ناقص حفاظتی انتظامات اور مجرمانہ غفلت برتتے ہوئے جائے وقوع کو فوری دھونے کے جرم میں 17 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں