اسمارٹ فونز میں فحش مواد دیکھنے میں بھارتی شہری سب سے آگے

اپ ڈیٹ 03 جنوری 2020
پابندی کے باوجود بھارت کے 91 فیصد صارفین کو اس ویب سائٹ تک موبائل فونز پر رسائی حاصل ہے — رائٹرز فائل فوٹو
پابندی کے باوجود بھارت کے 91 فیصد صارفین کو اس ویب سائٹ تک موبائل فونز پر رسائی حاصل ہے — رائٹرز فائل فوٹو

اسمارٹ فونز پر فحش مواد دیکھنے کے حوالے سے بھارتی شہری دنیا بھر میں سرفہرست ہیں۔

یہ بات فحش مواد دکھانے والی سب سے بڑی ویب سائٹ پورن ہب نے ایک رپورٹ میں بتائی، جس کے مطابق 2019 میں 89 فیصد بھارتی شہریوں نے پورن ویڈیوز کو موبائل ڈیوائسز میں دیکھا اور ایسا اس وقت ہوا جب بھارت میں اس ویب سائٹ پر پابندی عائد ہوچکی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ عالمی سطح پر ہر 4 میں سے 3 افراد فحش مواد موبائل فونز پر دیکھتے ہیں اور ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپس کی اہمیت کم ہوچکی ہے، جبکہ اس ویب سائٹ پر موبائل ٹریفک میں 2018 کے مقابلے میں 2019 میں 10 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

بھارت کے بعد امریکا 81 فیصد کے ساتھ دوسرے جبکہ برازیل 79 فیصد کے تیسرے نمبر پر رہا۔

جاپان میں 70 فیصد افراد اس طرح کا مواد اسمارٹ فونز پر دیکھنے کے عادی ہیں جبکہ برطانیہ میں 74 فیصد صارفین ایسا کرتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بھارت میں اسمارٹ فونز میں فحش مواد کو دیکھنے کی شرح میں اضافے کی بڑی وجہ سستے موبائل ڈیٹا پلانز کی دستیابی کے ساتھ مڈرینج اور فلیگ شپ فونز کی قیمتوں میں بھی کمی قرار دی گئی۔

بھارت اس وقت فی فون سب سے زیادہ موبائل انٹرنیٹ استعمال کرنے والا ملک ہے جہاں اوسطاً ماہانہ ہر صارف 9.8 جی بی انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے۔

2024 تک اس شرح میں دوگنا اضافے کی توقع ہے اور یہ 18 جی بی تک پہنچ جائے گا، اسی طرح 2021 میں بھارت میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 82 کروڑ تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔

واضح رہے کہ بھارت میں اکتوبر 2018 میں 827 پورن ویب سائٹس پر پابندی عائد کی گئی تھی جس کی وجہ ایک ریپ کیس بنا تھا جس میں ملزم نے اس طرح کا مواد دیکھ کر جرم کا ارتکاب کیا تھا۔

مگر اب بھی بھارت کے 91 فیصد صارفین کو پورن ہب تک موبائل فونز پر رسائی حاصل ہے، جبکہ اکتوبر 2018 سے بھارت میں ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) ڈاﺅن لوڈ کرنے کی شرح میں 405 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

2018 میں بھارت کی جانب سے ملک میں پورن کو بلاک کرنے کی کوشش پہلی بار نہیں کی گئی تھی بلکہ 2015 میں بھی 857 سائٹس کو بلاک کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے مگر یہ فیصلہ بعد میں واپس لے لیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں