عرب لیگ کی لیبیا میں فوج بھیجنے کیلئے ترک پارلیمنٹ کی منظوری کی مذمت

اپ ڈیٹ 03 جنوری 2020
ترک پارلیمنٹ نے فوج بھیجنے کا اختیار صدر اردوان کو دینے کی منظوری دی تھی—فوٹو:اے پی
ترک پارلیمنٹ نے فوج بھیجنے کا اختیار صدر اردوان کو دینے کی منظوری دی تھی—فوٹو:اے پی

عرب لیگ نے ترک پارلیمنٹ کی جانب سے لیبیا میں فوج بھیجنے کی منظوری اور اس حوالے سے صدر رجب طیب اردوان کو اختیار دینے پر شدید مذمت کردی۔

سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) کی رپورٹ کے مطابق عرب لیگ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ‘عرب لیگ سخیرت معاہدے پر مکمل عمل درآمد کے ذریعے سیاسی عمل کی حمایت کا اعلان کرتی ہے جو لیبیا میں کسی بھی سیاسی حل کا واحد ذریعہ ہے’۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘عرب لیگ نے لیبیا میں ممکنہ عسکری کارروائی سے بحران مزید گھمبیر ہونے اور ہمسایہ ممالک سمیت پورے خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرات کے خدشات کا اظہار کیا’۔

یاد رہے کہ نومبر 2019 میں ترکی نے لیبیا کی عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت (جی این اے) کے ساتھ سلامتی اور فوجی تعاون سمیت سمندری دائرہ اختیار کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

بعد ازاں ترکی نے لیبیا میں فوجی بھیجنے کے لیے پارلیمنٹ سے منظوری کے لیے بل پیش کیا تھا۔

مزید پڑھیں:ترکی- طرابلس معاہدے: عرب لیگ کا لیبیا میں 'بیرونی مداخلت' روکنے پر زور

ترک پارلیمنٹ میں فوج لیبیا بھیجنے کی منظوری

ترک پارلیمنٹ نے 2 جنوری کو طرابلس میں فوجیوں کی تعیناتی کی منظوری دی تھی جو اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت سے تعاون کرے گی۔

رجب طیب اردوان نے لیبیا کی صورت حال پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلی فون پر بات کی تھی جبکہ اگلے ہفتے روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے بھی اس حوالے سے تبادلہ خیال متوقع ہے۔

روسی صدر اور طیب اردوان اگلے ہفتے نئی گیس پائپ لائن کا افتتاح کریں گے جہاں ممکنہ طور پر لیبیا کے امور پر بات چیت ہوگی۔

ترک پارلیمنٹ میں یہ بل گزشتہ روز پیش کیا گیا تھا جہاں اس کے حق میں 325 اور مخالفت میں 184 ووٹ پڑے تھے۔

ترک وزیر خارجہ میولت کاؤس اوغلو کا پارلیمنٹ کی منظوری پر کہنا تھا کہ ‘لیبیا کے حوالے سے قرارداد ہمارے ملک کے مفادات کے تحفظ اور خطے کی امن و سلامتی کے لیے اہم ہے’۔

یہ بھی پڑھیں:ترک صدر کا لیبیا کی مدد کیلئے اپنی فوج بھیجنے کا اعلان

خیال رہے کہ لیبیا میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کی حکومت کو 2011 میں شروع ہونے والی مہم 'عرب بہار' کے دوران اقتدار سے الگ کیا گیا تھا۔

معمر قذافی کے خلاف مغربی ممالک نے کارروائیوں میں حصہ لیا تھا تاہم ان کے اقتدار کے بعد لیبیا میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا اور خانہ جنگی شروع ہوئی جہاں ایک طرف عسکریت پسند مضبوط ہوئے تو دوسری طرف جنرل خلیفہ حفتر نے اپنی ملیشیا بنائی اور ایک حصے پر اپنی حکومت قائم کر لی۔

جنرل خلیفہ حفتر کی ملیشیا نے رواں برس اپریل میں طرابلس کا محاصرہ کر لیا تھا اور حکومت کے نظام کو درہم برہم کردیا تھا اور ان کو خطے کے اہم ممالک سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات کا تعاون حاصل ہے۔

ترک پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے فوری بعد مصر کی جانب سے ردعمل آیا تھا اور اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ عالمی قوانین اور لیبیا کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔

عرب لیگ نے یکم جنوری کو بھی اپنے ایک بیان میں لیبیا کی حکومت کے ساتھ ترکی کے فوجی اور سمندری معاہدوں کے تناظر میں طرابلس میں 'بیرونی مداخلت کو روکنے' کا مطالبہ کیا تھا۔

مصر کی درخواست پر قاہرہ میں واقع صدر دفتر میں منعقدہ اجلاس میں عرب لیگ کے مستقل نمائندوں نے قرارداد منظور کی تھی جس میں 'بیرونی مداخلت' کو روکنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا تھا 'یہ مداخلت لیبیا میں غیر ملکی انتہا پسندوں کی آمد کو آسان بنانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے'۔

قرارداد میں لیبیا میں اضافی فوجیوں کی تعیناتی سے صورتحال مزید خراب ہونے پر سنگین تشویش کا بھی اظہار کیا گیا اور اسے ہمسایہ ممالک اور پورے خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ قرار دیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں