ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی حراست کے خلاف درخواست سماعت کیلئے منظور

اپ ڈیٹ 04 جنوری 2020
عدالت کو اس حوالے سے قانونی سوالات کا جائزہ لینے کے لیے وقت درکار ہے، جسٹس وقاص رؤف — فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت کو اس حوالے سے قانونی سوالات کا جائزہ لینے کے لیے وقت درکار ہے، جسٹس وقاص رؤف — فائل فوٹو: اے ایف پی

راولپنڈی: لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے لیفٹیننٹ کرنل (ر) ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی حراست کے خلاف دائر کردہ درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی۔

وزارت دفاع نے اعتراف کیا تھا کہ وکیل کو پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) کے تحت آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ ایڈووکیٹ انعام الرحیم نے لاپتہ افراد کی بازیابی اور فوج اور مسلح افواج کے انتظامی احکامات کے خلاف متعدد درخواستیں دائر کر رکھی تھیں۔

اس کے ساتھ وہ جنرل ہیڈکوارٹر راولپنڈی (جی ایچ کیو) حملے اور نیوی کے افسران سمیت دیگر افراد کی سزا کے حوالے سے ہونے والے ہائی پروفائل کورٹ مارشل کے خلاف دائر درخواست کے بھی وکیل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: زیر حراست وکیل سے رازداری قانون کی ’خلاف ورزی‘ کی تفتیش جاری ہے، وزارت دفاع

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس وقاص رؤف نے اس کیس کی سماعت جمعے کے روز شروع کی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے بتایا کہ انعام الرحیم کو قانون کے تحت حراست میں لیا گیا۔

تاہم وہ عدالت کو ایک آرمی افسر کی مسلح افواج سے ریٹائرمنٹ کے کئی سال بعد حراست میں لینے کے حوالے سے مطمئن نہیں کر سکے، بعد ازاں عدالت نے درخواست کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے سماعت 9 جنوری تک ملتوی کردی۔

اس حوالے سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) کی دفعہ 13 فوج کو ریٹائرڈ افسران سے تفتیش کا اختیار دیتی ہے۔

تاہم لیفٹیننٹ کرنل (ر) انعام الرحیم کے اہلِ خانہ کے وکیل احسان الدین شیخ نے موقف اختیار کیا کہ ریٹائرڈ آرمی افسر کے خلاف دفعہ 13 کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب شکایت پہلے سے درج ہو۔

مزید پڑھیں: لاپتہ افراد کے مقدمات کا اندراج کروانا ریاست کی ذمہ داری، عدالت

درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے ایک اور وکیل بریگیڈیئر ریٹائرڈ واصف خان نیازی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی کو جواب دیتے ہوئے مختلف کیسز کی مثالیں پیش کیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ریٹائرڈ افسر کی حراست کے حوالے سے آرمی ایکٹ واضح ہے جبکہ انعام الرحیم کو پی اے اے کی متعلقہ دفعہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حراست میں لیا گیا۔

اس موقع پر مقدمے کی سماعت کچھ وقت کے لیے موقوف کی گئی جس کے بعد اسے بحال کیا گیا۔

سماعت میں جسٹس وقاص رؤف نے کہا کہ چونکہ یہ معاملہ ہابیئس کارپس (زیر حراست شخص کو عدالت میں پیش کرنے کی درخواست) سے متعلق ہے اس لیے عدالت کو اس حوالے سے قانونی سوالات کا جائزہ لینے کے لیے وقت درکار ہے، بعد ازاں سماعت ایک ہفتے تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتہ افراد کے مقدمات سول عدالتوں میں چلانے کا فیصلہ

وکیل کے مبینہ اغوا کے درج مقدمے کے مطابق ایڈووکیٹ انعام الرحیم کو نامعلوم افراد نے عسکری 14 میں موجود ان کی رہائش گاہ سے اٹھایا جو گیریژن شہر میں خاصی محفوظ آبادی سمجھتی جاتی ہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ جس وقت ایڈووکیٹ انعام الرحیم سو رہے تھے نامعلوم افراد ان کی رہائش گاہ میں زبردستی داخل ہوئے اور انہیں جبراً اغوا کرتے ہوئے اہلِ خانہ کو دھمکیاں دیں۔

اس سے قبل جمعرات کو ہونے والی سماعت میں وزیر دفاع نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ لیفٹیننٹ کرنل (ر) انعام الرحیم ان کے ماتحت ادارے کی حراست میں موجود ہیں جن سے مبینہ طور پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی تفتیش کی جارہی ہے۔


یہ خبر 4 جنوری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں