جج ویڈیو کیس انسداد دہشت گردی عدالت منتقل

اپ ڈیٹ 10 جنوری 2020
ارشد ملک نے نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی—فائل فوٹو: فیس بک
ارشد ملک نے نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی—فائل فوٹو: فیس بک

اسلام آباد: برقی جرائم کے روک تھام ایکٹ کی عدالت (پیکا) کے قائم مقام جج نے ویڈیو اسکینڈل کیس کو انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) میں منتقل کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے انسداد دہشت گردی ونگ نے احتساب عدالت کے سابق جج محمد ارشد ملک کی ’غیر اخلاقی‘ ویڈیو کا کیس اے ٹی سی منتقل کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔

یاد رہے کہ ارشد ملک وہی جج ہیں جنہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا تھا۔

قبل ازیں 21 اکتوبر کو سائبر کرائم عدالت نے جج ویڈیو اسکینڈل اے ٹی سی کو منتقل کرنے کی درخواست مسترد کردی۔

یہ بھی پڑھیں: جج ویڈیو اسکینڈل کیس میں ایف آئی اے کی پرویز رشید سے تفتیش

کیس کے ابتدا میں ایف آئی اے کے سائبر کرائم سرکل نے کیس کی تحقیقات کی اور تین ملزمان، ناصر جنجوعہ، خرم یوسف اور مہر گیلانی کو گرفتار کیا تھا تاہم ایف آئی اے نے انہیں ابتدائی تفتیش کے بعد بری کردیا تھا۔

بعدازاں جج ارشد ملک کی درخواست پر ایف آئی اے نے مذکورہ کیس کی تحقیقات انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈبلیو) ونگ کو منتقل کی تھی جس کے بعد سی ٹی ڈبلیو نے 2 ملزمان کو گرفتار کیا تھا جس میں برطانیہ میں موجود مسلم لیگی رہنما ناصر جنجوعہ کے بھتیجے بھی شامل تھے جنہوں نے خفیہ طور پر سابق جج کی اعترافی ویڈیو ریکارڈ کی تھی۔

جج ارشد ملک نے سائبر کرائم ونگ پر الزام عائد کیا تھا کہ ایف آئی اے نے ایک ’دوستانہ تفتیش‘ کے بعد تینوں ملزمان کو بری کردیا۔

اس سے قبل بھی ایف آئی اے نے انسداد دہشت گردی ونگ کے زیرِ تفتیش ہونے کی وجہ سے سائبر کرائم عدالت میں کیس کو اے ٹی سی منتقل کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔

مزید پڑھیں: جج ویڈیو لیک کیس: ایف آئی اے کی اپنے ہی افسران کے خلاف کارروائی کی استدعا

تاہم پیکا کے سابق جج نے ملزمان کے خلاف کارروائی جاری رکھتے ہوئے ان پر فردِ جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں فرد جرم عائد کرنے سے روکتے ہوئے معاملہ دوبارہ پیکا بھیج دیا تھا۔

چنانچہ جمعرات کو پیکا کے قائم مقام جج نے ایف آئی اے کی درخواست قبول کرتے ہوئے کیس انسداد دہشت گردی عدالت بھیج دیا۔

علاوہ ازیں جج نے ویڈیو کیس سے ملزمان کی بریت کی درخواست بھی اے ٹی سی کو بھجوادی۔

جج ویڈیو لیک کیس

یاد رہے کہ 6 جولائی کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔

مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا کہ 'نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے، لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے‘۔

انہوں نے ویڈیو سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ جج ارشد ملک، ناصر بٹ کے سامنے اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے، ویڈیو میں جج خود کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف ایک دھیلے کی منی لانڈرنگ کا ثبوت نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حسین نواز نے 50 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی، جج ارشد ملک

یاد رہے کہ ارشد ملک وہی جج ہیں جنہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا تھا۔

تاہم ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا۔

خیال رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما ناصر بٹ نے 5 اکتوبر کو احتساب عدالت کے سابق جج محمد ارشد ملک کے خلاف شواہد جمع کروائے تھے۔

مزید پڑھیں: ویڈیو تنازع: اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ

ناصر بٹ کی جانب سے جمع کروائے گئے دستاویزات میں ان کے اور جج ارشد ملک کے درمیان گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ کی ٹرانسکرپٹ کی تصدیق شدہ کاپیاں، بات چیت کی ویڈیو کم آڈیو ریکارڈنگ کی ٹرانسکرپٹ، درخواست گزار کا بیان حلفی، آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگز کی فرانزک رپورٹس اور دونوں افراد کے درمیان بات چیت کی اصل آڈیو اور ویڈیو-کم-آڈیو ریکارڈنگز کی کاپیوں پر مشتمل یو ایس بی شامل ہیں۔

انہوں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ مذکورہ دستاویزات کو العزیزیہ ریفرنس کیس میں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل کے ریکارڈ میں شامل کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ ویڈیو میں موجود جج ارشد ملک نے سابق وزیراعظم کو دباؤ کے تحت سزا سنانے کا اعتراف کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں