اسحٰق ڈار کی عدالتی مفرور قرار دینے کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا

اپ ڈیٹ 19 جنوری 2020
اسحٰق ڈار کو احتساب عدالت نے دسمبر 2017 میں عدالتی مفرور قرار دیا تھا—فائل/فوٹو:اے پی
اسحٰق ڈار کو احتساب عدالت نے دسمبر 2017 میں عدالتی مفرور قرار دیا تھا—فائل/فوٹو:اے پی

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے انہیں عدالتی مفرور قرار دینے کے فیصلے کو معطل کرنے اور اپیل کی فوری سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

اسحٰق ڈار نے اپنے وکیل سید رفاقت حسین شاہ کے ذریعے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی اور عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل فوری سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کی۔

اپیل میں انہوں نے اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر ایک کے جج، قومی احتساب بیورو (نیب) اور نیب لاہور کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر، تفتیشی افسر نادر عباس کو فریق بنایا ہے۔

مزید پڑھیں:نیب ریفرنس میں اسحٰق ڈار اشتہاری قرار

اسحٰق ڈار کے وکیل نے درخواست میں کہا کہ اپیل آئندہ ہفتے سماعت کے لیے مقرر کی جائے، مفرور قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیل پر جلد سماعت نہ ہوئی تو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

انہوں نے کہا کہ 21 نومبر 2017 کو احتساب عدالت کی جانب سے دیے گئے فیصلے کے بعد اثاثے ضبط کر لیے گئے ہیں اور تمام اثاثوں کو نیلامی پر لگادیا گیا ہے۔

اسحٰق ڈار نے درخواست میں کہا ہے کہ بطور شہری عدلیہ کا احترام کرتا ہوں اور احتساب عدالت میں پیش بھی ہوتا رہا لیکن علالت کے باعث ملک سے باہر جانا پڑا۔

وکیل نے درخواست میں کہا ہے کہ ان کے موکل کی عمر 69 سال ہے اور 2013 سے انجائنا کا شکار ہیں اور اس وقت بھی زیر علاج ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:اسحٰق ڈار جائیداد نیلامی، عدالت نے نوٹس کی تعمیلی رپورٹ طلب کرلی

ان کا مزید کہنا ہے کہ اکتوبر 2017 میں میرے موکل نے وفاقی وزیر خزانہ کی حیثیت سے تاجکستان کے شہر دوشنبے میں وزرا کانفرنس میں شرکت کی جس کے بعد عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے جہاں عمرے کی ادائیگی کے دوران ایک مرتبہ پھر انہیں تکلیف شروع ہوئی جس کے باعث فوری طور پر علاج کے لیے برطانیہ جانا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کی جانب سے انہیں مشورہ دیا گیا کہ فضائی سفر سے گریز کریں جبکہ اسی تکلیف کے باعث نومبر 2017 میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے چھٹی لی۔

درخواست میں سابق وزیر خزانہ نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ احتساب عدالت کی جانب سے مفرور قرار دیے جانے کا فیصلہ معطل کردیا جائے۔

یاد رہے کہ 11 دسمبر 2017 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار کو آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے ریفرنس اشتہاری قرار دے کر ان کے ضمانتی مچلکوں کو ضبط کرلیا تھا۔

احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار کو تین روز میں 50 لاکھ روپے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگر مقررہ وقت میں ضمانتی مچلکے جمع نہیں کرائے گئے تو ضامن کی جائیداد کو بھی ضبط کرلیا جائے گا۔

احتساب عدالت میں سماعت کا آغاز ہوا تو اسحٰق ڈار کی جانب سے ان کے وکیل نے احتساب عدالت میں نئی میڈیکل رپورٹ پیش کی تھی۔

مزید پڑھیں:نیب ریفرنس: اسحٰق ڈار کے خلاف مزید 5 گواہان طلب

اسحٰق ڈار کے وکیل قوسین فیصل مفتی نے نئی میڈیکل رپورٹ پیش کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی تھی کہ اسحٰق ڈار کو اشتہاری قرار نہ دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ میڈیکل رپورٹ کے لیے ہمیں اسحٰق ڈار کی ایم آر آئی رپورٹ کا انتظار تھا جبکہ ان کے سینے میں اب بھی تکلیف ہے اور دل کی شریان میں بھی معمولی مسئلہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسحٰق ڈار کے ابھی مزید ٹیسٹ ہونے ہیں جبکہ نیب نے پچھلی رپورٹس کی ابھی تک تصدیق نہیں کروائی ہے۔

نیب کے خصوصی پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم کو تمام عدالتی کارروائی کا معلوم ہےاس لیے ہمیں وارنٹ لندن بھجوانے کی ضرورت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر میڈیکل رپورٹ دوسری رپورٹ سے مختلف ہے جبکہ اسحٰق ڈار کو دل کی کوئی تکلیف نہیں ہے۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد اسحٰق ڈار کو اشتہاری قرار دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:اسحٰق ڈار نے ‘اشتہاری’ قرار دیئے جانے کا فیصلہ چینلج کردیا

اسحٰق ڈار نے بعد ازاں 19 دسمبر 2017 کو احتساب عدالت کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور موقف اپنایا تھا کہ سماعت ابتدائی مراحل میں ہے اور احتساب عدالت نے ناقابل ضمانت وارنٹ اور جائیداد ضبطگی کے احکامات جاری کردیے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں